فقیر آف ایپی: قبائل کا جرنیل پختون قوم کا ایک گمنام ہیرو
مفتی محمد کریم اختر اورکزئی
آج 16 اپریل کو پختون قوم کے ایک سورما، بہادر جرنیل، برطانوی سامراج کو بار بار شکست سے دوچار کرنے والے عظیم مجاھد الحاج میرزا علی خان المعروف فقیر آف ایپی رحمہ اللہ کا یوم وفات ہے۔
موصوف وزیرستان کے علاقہ ایپی میں بمقام "کرتہ” ارسلا خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش 1892 ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے مولوی خوائیداد خان، مولوی عالم خان، مولوی مانے جان اور دیگر معتبر علماء سے حاصل کی اور حصول علم کے بعد ایک مقامی مسجد میں پیش امام بن گئے مگر ابھی تک آپ کی علمی و روحانی پیاس نہیں بجھی تھی۔ اسی روحانی تشنگی کو دور کرنے کی خاطر آپ نے کربوغہ، تیراہ، سوات کے بے شمار روحانی مراکز کی خاک چھانی اور بالآخرخوست کے راستے سے جلال آباد پہنچے اور پیر سید حسن الگیلانی المعروف نقیب شاہ جلال آبادیؒ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ آپ کے زہد و تقوی کو دیکھ کر مرشد بہت خوش ہوئے اور آپ کو مختصر عرصے میں خلافت سے سرفراز فرمایا۔ آپ جب واپس گاوں آئے تو آپ کی روحانی و کرشماتی شخصیت سے علاقہ کے لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپ کے روحانی کمالات کو دیکھ کر داوڑ، وزیر اور بیٹنی قوم کے سینکڑوں افراد آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔
آپ کی شہرت کو چار چاند تب لگے جب آپ نے برطانوی سامراج کو چیلنج کیا، یہ غالباً 1936 کی بات ہے، جس کی وجہ سے آپ کی شہرت بڑی تیزی سے پھیلتی چلی گئی اور یوں دوردراز سے حریت پسند لوگ جوق در جوق آتے گئے اور اس فقیری لشکر کا حصہ بنتے گئے۔
پہلی ہی جنگ میں برطانوی فوج کو پے درپے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ حکومت برطانیہ نے مجاہدین آزادی کے خلاف مختلف کاروائیوں میں 54600 فوجی استعمال کیے اور فروری 1937 سے اگست 1937 تک وزیرستان پر 7087 بم گرائے، ان میں سے زیادہ تر 20-20 پاونڈ وزنی ہوتے تھے۔
الغرض فقیر ایپیؒ نے، گوروں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد جب ارض پاک معرض وجود میں آیا تو، پاکستان کے خلاف بھی مسلح جدوجہد کا اعلان کیا کہ پاکستان سے اگرچہ گورے انگریز چلے گئے تھے مگر ”کالے انگریز” کو پیچھے چھوڑ گئے جو پاکستان کی پاک سرزمین پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں لہذا قبائلیوں کو پہلے کی طرح ان کے خلاف بھی برسر پیکار رہنا چاہیے۔ چنانچہ 15 جون 1948 کو فقیر ایپی نے 800 افرد پر مشتمل لشکر تیار کر کے پاکستان کے خلاف باقاعدہ مسلح مزاحمت شروع کی اور ٹل کے قلعہ پر دھاوا بول دیا لیکن جب قلعہ سے لشکر منتشر کرنے کے لیے مارٹر گولے برسائے گئے تو تو لشکر تتر بتر ہوا اور پاکستان ائیر فورس طیارے کی بمباری سے پچاس افراد لقمہ اجل بن گئے۔
19 جنوری 1950 کو فقیر نے وزیروں اور محسودوں کے علماء اور ملکوں کا مشترکہ لویہ جرگہ طلب کیا اور طویل بحث کے بعد عبوري حکومت "پشتونستان” کا اعلان کیا۔ جرگہ کے بعد تمام قبائلی علاقوں میں پختونستان کے سرخ جھنڈے لہرائے گئے لیکن حکومت نے فضائی ایکشن کر کے جھنڈے لہرانے والے تمام لوگوں کو نشانہ بنا ڈالا۔
پختون قوم کے یہ سچے لیڈر، قبائل کے عظیم جرنیل 16 اپریل 1960 کو پاکستان سے مصالحت کیے بغیر خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!