افغانستان سے باہر جانے والی خواتین صحافی سنگین مسائل سے دوچار
مریم ایوب
افغانستان میں گزشتہ سال اگست میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد دیگر متعدد مسائل کے علاوہ وہاں مختف شعبہ جات بی بری طرح سے متاثر ہوئے جن میں سے ایک میڈیا کا شعبہ بھی ہے۔
صوبہ خوست کے رہائشی سلیمان ژوندے اپنے ملک میں ایک نجی میڈیا ادارے کے ساتھ وابستہ تھے تاہم اب وہ ادارہ بند ہو چکا ہے۔ سلیمان ژوندے دعوی کرتے ہیں کہ موجودہ وقت میں افغانستان میں ریڈیو، ٹیلی وژن اور دیگر بیشتر میڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی صحافیوں نے دیگر ممالک کا رخ کیا ہے، ”میڈیا کے تقریباً ساڑھے تین سو ادارے بند ہو گئے خواتین کی شرکت تو بالکل صفر ہو کر رہ گئی ہے، اس کے ساتھ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد غیرقانونی یا قانونی راستے سے پاکستان، ایران، ترکی جا رہے ہیں، شروع میں ہم نے کوشش کی کہ ان کے ساتھ تحمل سے کام لیں، کام کریں لیکن یہ ان رپورٹس کو یا میڈیا کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے اور کہتے ہیں کہ آپ باغی خیالات کے حامل غیرممالک کے پالے ہوئے ہیں اور آپ کے نزدیک انسانی اسلامی فوائد کی اہمیت نہیں ہے۔”
سلیمان ژوندے نے آج کل پشاور میں صحافت کا اپنا شوق زندہ رکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی شروع کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی طرح کے مرد صحافیوں نے تو پھر بھی کوئی نا کوئی شروع کیا ہے تاہم افغانستان سے باہر جانے والی خواتین صحافی سخت قسم کے مسائل سے دوچار ہیں، ”پاکستان میں اپنا کاروبار بھی شروع کیا، میڈیا کے ساتھ بھی بات کی، اب شکر ہے یہاں زندگی اچھی ہے، سہولت ہے اور ان لوگوں کے ہم بڑے مشکور ہیں جنہوں نے کہ جو افغان صحافی ادھر آئے ہیں انہیں بڑے حوصلے اور محبت سے کام دیا ہے، جگہ دی ہے۔”
چند ماہ قبل اِدھر آنے والی افغانستان کی صحافی رمزیہ نوری سلیمان ژوندے کی اس بات کی تائید کرتی ہیں جنہوں نے افغانستان میں اپنی زندگی کے اکیس سال صحافت میں گزارے اور آج اِدھر بے روزگار ہیں، ”اب ایک ماہ ہوا ہے کہ پاکستان آئی ہوں، ہر گزرتے دن کے ساتھ میری مشکلات بڑھ رہی ہیں، اس وقت پاکستان میں بھی گھر کے کرایے کے حوالے سے مسائل ہیں، بے روزگاری ہے، ادھر ہم افغانوں کے لئے روزگار کا بندوبست نہیں ہے، زبان کا بھی مسئلہ ہے، جہاں بھی کام کے لئے جاتی ہوں زبان نہیں آتی، یہاں مجھے بہت مسائل ہیں، بے روزگاری ہے، ادھر افغانوں کو کام نہیں دیا جاتا اس لئے مسائل بہت ہیں، میرا کام صحافت ہے اب یہاں بے روزگار ہوں، ادھر ہمارے مردوں کو روزگار نہیں دیا جاتا تو خواتین کے لئے تو بالکل بھی مواقع نہیں ہیں۔”
سلیمان ژوندے کی طرح خمینی سجاد بھی افغانستان کے مخلتف میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پشاور یونیورسٹی سے پشتو میں ماسٹرز بھی کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کے دور میں میڈیا ادارے بڑی اچھی طرح سے کام کر رہے تھے، افغانستان میں تقریباً تین سو ستر تک ایف ایم ریڈیو چینل تھے لیکن جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے یہ سارے بند ہو گئے ہیں، ”بہت سے نوجوانوں نے ریڈیو چینلز، ٹی وی اور میڈیا کے دیگر اداروں میں کام کیا، اس میں تجربہ حاصل کیا لیکن جب افغانستان میں تبدیلی آئی، جمہوریت چلی گئی تو بہت سے اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا کیونکہ وہ اپنے کارکنان کو تنخواہ نہیں دے سکتے تھے، ریڈیو، ٹی وی چینلز کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے تھے، اور بعض ریڈیو چینلز اور صحافیوں نے اس شعبہ میں خطرات کو بھی بھانپ لیا تو اس وجہ سے انہوں نے اپنے اداروں کو بند اور اس کام کو چھوڑ دیا۔”
بقول ان کے اب انہوں نے پشاور میں عملی صحافت کا آغاز کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا سلسلہ تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، ”اب ایک (میڈیا) ادارے کے ساتھ کام کرتا ہوں، میری خوش قسمتی کہ یہاں اپنے شعبہ میں کام کرنے کے قابل ہوا، میں اپنے دفتر کے سربراہ اور ساتھیوں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے لئے ملازمت کا بندوبست کیا اور میں اپنے شعبہ میں کام کر رہا ہوں، یہ میرے لئے بہت اہم ہے (کہ اس کی بدولت) میں اتنا کمانے کے قابل ہوا کہ اپنی زندگی کے شب و روز گزار سکوں، اپنے شعبے سے وابستہ رہوں اور اس کے ساتھ پشتو میں ایم فل بھی کر سکوں۔”
افغان صحافیوں نے میڈیا اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان سخت حالات میں انہیں سپورٹ کیا جائے اور انہیں اداروں میں ملازمت دی جائے تاکہ ان کی مشکلات بھی کم ہو سکیں اور افغان مہاجرین کو بروقت معلومات بھی حاصل ہو سکیں۔