قبائلی اضلاع کی خواتین اور فرسودہ روایات
رضیہ محسود
‘مجھے جب نرسنگ کی نوکری سے چھٹیاں مل جاتی ہے اور پشاور سے وزیرستان جانا ہو تو میں اپنے گھر اطلاع دیتی ہوں کہ مجھے لینے کے لئے کوئی آجائے تو کہا جاتا ہے کہ اب آپ چھوٹی نہیں ہو خود ٹکٹ کرکے گھر اجاو لیکن جب مجھے میرے کسی رشتے دار یا سہیلی کے گھر آنا جانا ہو یا پھر وزیرستان میں کسی سیاسی سرگرمیوں میں بطور پولنگ ایجنٹ کے کام کرنا ہو تو مجھے بالکل بھی اجازت نہیں دی جاتی’
یہ کہنا ہے (خالدہ) فرضی نام کا جس نے اپنے گلے شکوے کچھ یو بیان کئے۔ خالدہ پشاور میں نرسنگ کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے۔خالدہ اپنے گھر والوں کے رویوں سے پریشان ہے اور کہتی ہے کہ پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان جاتے ہوئے چھ گھنٹے کی مسافت ہے جوکہ روڈ خراب ہونے کی وجہ سے مزید بڑھ جاتی ہے اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے وزیرستان الگ سے 4 گھنٹے کی مسافت طے کرنا پڑتا ہے۔ خالدہ کا کہنا ہے کہ ہمارے ایک رشتے دار الیکشن لڑ رہے تھے اور وہ باقاعدہ ہمارے گھر آئے اور درخواست کی کہ زنانہ پولنگ اسٹیشن پر مجھے خواتین کی ضرورت ہے اور جب ہمارے اپنے رشتےداروں میں پڑھی لکھی لڑکیاں موجود ہے تو ہمیں کسی اور سے بطور پولنگ ایجنٹ کے کام نہیں لینا چاہیے۔گھر والے مان گئے لیکن عین موقع پر ہمیں یہ کہہ کر گھر بٹھایا گیا کوئی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری طرف جب مجھے نوکری سے چھٹیاں مل جاتی ہے تو میں اپنے گھر والوں کو لے جانے کا کہتی ہوں جس کی وجہ سے وہ یہ کہہ کر آنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ آپ اب بڑی ہو گئی ہو اور خود ٹکٹ لیکر آجاو ۔خالدہ کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہی دو طرز کا رویہ ہمارے علاقے کی پسماندگی کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
اسی طرح ایک صاحب جس کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اس نے بتایا کہ میری بیٹی ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن چکی ہے اور وزیرستان میں ہمارا اپنا ہسپتال ہے جوکہ ویران ہے باہر سے اگر کوئی ڈاکٹر بھی جائے تو وہ زیادہ دیر نہیں رکتا اور اپنا ٹرانسفر کروا دیتا ہے۔ ہمارے علاقے میں لوگوں کو خاص کر خواتین کو صحت کے حوالے سے شدید مشکلات درپیش ہے اکثر خواتین اور بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ علاو الدین (فرضی ) نام کیونکہ وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ علاوین کا کہنا ہے کہ میں کافی خوش تھا کہ میری بیٹی ڈاکٹر بنے گی تو وہ اپنے علاقے میں اپنے ہسپتال کر خدمات سرانجام دے گی لیکن جب بیٹی سے یہ سنا کہ بابا میں وزیرستان نہیں جانا چاہتی میں یہی پر اپنی خدمات جاری رکھنا چاہتی ہوں تو بہت حیرت ہوئی اور میں نے اپنی بیٹی سے نہ جانے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ بابا میں نے بہت محنت کی ہے اور میں اگر وزیرستان چلی جاؤں تو بابا آپ کو پتہ ہے کہ وہاں کے لوگ کیا کیا باتیں بنائنگے اور مجھے ڈیوٹی نہیں کرنے دینگے۔
ایک بیوہ عورت جس کا تعلق وزیرستان سے ہے اس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں کشیدہ کاری کرنے کا ہنر جانتی ہوں اور بہترین علاقائی کشیدہ کاری اور سلائی کڑھائی جانتی ہوں لیکن میں اس کو بطور ایک ہنر کے بناتی ضرور ہوں لیکن بیچ نہیں سکتی کیونکہ اگر میں اس کو بیچنا شروع کرونگی تو علاقے کے لوگ میرا مذاق اڑانا شروع کر دینگے، اسلئے مجھے زکوۃ خیرات مل جاتی ہے جس پر میں گھر اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہوں۔
شعیب محسود ایک سماجی کارکن ہے، اس کا کہنا ہے کہ چونکہ اب حالات بدل چکے ہیں اب لوگوں میں شعور اچکا ہے اور لوگوں کی مشکلات اس مہنگائی میں مزید بڑھ گئے ہیں لیکن ہمارے کچھ فرسودہ روایات ہماری پسماندگی کا سبب بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہماری پڑھی لکھی لڑکیاں اپنے علاقے کے سکول اور ہسپتالوں کو آباد کرنے کے بجائے دوسرے شہروں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور جس کی وجہ سے ہمارے علاقے کی خواتین بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔
شعیب نے بتایا کہ وزیرستان کی مجبور خواتین جس کے پاس ہنر کی کوئی کمی نہیں جو الگ اور قیمتی کشیدہ کاری کرنے کا ہنر جانتی ہیں جو بہترین سلائی کڑھائی کر سکتی ہیں اور تو اور ہماری خواتین کچن گارڈن اور کھیتوں میں کام کرتی ہیں جس کی وجہ سے دیسی معیاری ٹوٹکے استعمال کرتی ہے لیکن ہماری خواتین کے پاس اپنے اس ہنر کو اپنی طاقت بنانے کا فن نہیں آتا۔ ہمارے وزیرستان میں جو لوگ رہائش پذیر ہے انتہائی غریب ہے جبکہ خواتین کے پاس بے شمار ہنر موجود ہے لیکن وہ اپنے اس ہنر سے معاشی طور پر مضبوط ہونے کا فن نہیں جانتی کیونکہ ایک طرف ہماری کچھ روایات اس کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہے جبکہ دوسری طرف شعور واگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہماری حکومت نے قبائلی اضلاع کی خواتین کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں آٹھائے اگر تھوڑا کچھ کیا بھی ہے تو وہ صرف کاغذات تک محدود ہے۔ یا پھر ان خواتین تک محدود ہے جو وزیرستان میں نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں مقیم ہے جبکہ اس قسم کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت وزیرستان میں رہائش پذیر خواتین کے لئے ہونی چاہیے کیونکہ وہی خواتین ہے جو انتہائی مجبور اور غربت کا شکار ہے۔ اگر ہماری خواتین کو مارکیٹ تک رسائی مل جائے کہ وہ اپنے گھر بیٹھ کر اپنا سامان مارکیٹ میں بیچ سکے اور اس حوالے سے آگاہی و ٹریننگ سیشن کروائے جائے تو بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
امین جس کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اس نے خواتین کے مسائل اور مشکلات کے حوالے سے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو ہماری خواتین کے پاس ہنر کی کوئی کمی نہیں لیکن شعورو آگاہی کی شدید کمی ہے جس کے لئے علاقے کے نوجوان،تعلیم یافتہ ہماری بہنیں اور مشران کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ اور حکومت خیبرپختونخوا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
اگر موجودہ حکومت قبائل اضلاع کو ترقی دینا چاہتی ہے تو وہ ہماری خواتین کے لئے گراونڈ پر کام کریں۔ایسے اقدامات سے نہ صرف ہماری خواتین معاشی طور پر مضبوط ہوگی جبکہ غربت میں بھی کافی حد تک کمی آجائے گی۔