کورونا وباء: ”ہم تین بھائی منڈی میں کام کر رہے ہیں، خرچے پھر بھی پورے نہیں ہو رہے”
عبدالستار، عبدالقیوم، خادم آفریدی
پشاور کی سبزی منڈیوں میں کورونا وباء کی وجہ سے کاروبار بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ سبزی منڈی میں سبزی فروشوں کا کہنا ہے کہ جب کورونا وباء پھیل گئی تو سبزیاں منڈیاں کھلنے کے باوجود بھی معمول کے مطابق کاروبار نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے ان کے معاش پر منفی اثر پڑا تھا اور اس کے اثرات تاحال جاری ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں مٹر بیچنے والے رحمت شاہ کا کہنا تھا کہ کورونا سے پہلے وہ روزانہ 4 من کے قریب مٹر فروخت کرتے تھے مگر جب لاک ڈاؤن نافذ ہوا تو سبزی منڈیوں میں گاہک کی تعداد کم ہونے لگی جس کی وجہ سے سبزی کی فروخت میں کمی آنی لگی، "حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ ہم اپنے بچوں کی سکول کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں رہے اور نہ ہم اپنی یوٹیلٹی بلز ادا کر سکتے تھے لیکن اب مارکیٹ دوبارہ بحال ہوئی ہے مگر اثرات اب بھی موجود ہیں۔”
رحمت شاہ کے مطابق ایک ریڑھی پر کاروبار سے ہم تین گھرانوں کو پالتے تھے مگر اب ہم تین بھائی منڈی میں کام کر رہے ہیں اور پھر بھی خرچے پورے نہیں ہو رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مہنگائی ختم کر کے سبزی فروشوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔
ٹماٹر فروش حامدار کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے تمام روزگار متاثر ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے ایک طرف مہنگائی ہے اور دوسری طرف دیگر کاروبار کورونا سے متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کے معاشی حالات بھی ابتر ہو چکے ہیں تو اس وجہ سے وہ کھانے کی چیزوں کی خرید میں بھی کمی لانے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اس کے براہ راست اثرات ہمارے کاروبار پر پڑ چکے ہیں۔
کورونا وباء نے نہ صرف کاروبار متاثر کر دیا بلکہ کاشتکاری سے منسلک افراد کے معاش پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں کاشتکاروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم کسان بورڈ کے صدر رضوان اللہ کا کہنا تھا کہ جب کورونا وباء پھیل گئی تو حکومت نے تمام ادروں کیلئے ایس او پیز مرتب کئے مگر کاشتکاروں کو اس وقت بھی توجہ نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کاشتکاروں کے حوالے سے حکومت کے کوئی اہداف نظر نہیں آ رہے تھے اور نہ ہی محکمہ زراعت نے ان کو شعور دلانے کیلئے کوئی اقدامات اُٹھائے ہیں تاکہ کاشتکار کس طرح کورونا کے دوران اپنی کھیتی باڑی کو دوام دے سکیں۔
انہوں نے حکومتی تعاون کے بارے میں بتایا کہ وباء کے بعد حکومت نے تمام کاروباری اور دیگر شعبوں سے منسلک افراد کے ساتھ معالی تعاون کے بیانات دیئے مگر اب تک وہ بیانات عملی نہ ہو سکے ہیں۔
کسان بورڈ صدر رضوان اللہ کے مطابق ضلع سوات، پشاور، مردان اور چارسدہ میں کیش کراپ اُگائے جاتے ہیں جن میں سٹرابری، گندم، گنا اور سبزیاں شامل ہیں جو گلف ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں، جب ٹرانسپورٹیشن بند ہو گئی تو سٹوریج نظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ خراب ہو گئیں اور کسانوں کو نقصان اُٹھانا پڑا۔
کسان بورڈ کے صدر نے بتایا کہ وباء کی وجہ سے تقریباً ڈھائی ہزار تک کسان وفات پا چکے ہیں جن کی مالی امداد کے سلسلے میں وزیراعظم سے ملاقات کیلئے کوشش کی مگر انہوں نے موقع نہیں دیا لیکن ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ٹی این این کے ساتھ کورونا وباء کے دوران کسانوں کو درپیش مسائل پر گفتگو میں خیبر پختونخوا کے محکمہ زراعت و توسیع کے ڈائریکٹر پلاننگ ڈاکٹر عبدالناصر ملک نے بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ہر ضلع کی سطح پر فارم سروس سنٹرز قائم کئے ہیں جہاں پر زمینداروں کو کاشتکاری کے دوران استعمال ہونے والے تمام آلات سمیت مشینری فراہم کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالناصر نے دعوٰی کیا کہ وبا کے دوران کاشتکاروں کی کھیتی باڑی متاثر نہیں ہوئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ محکمہ زراعت نے انہیں کسان کارڈ، سبسیڈائزڈ تخم اور سپرے دے کر ان کے مالی اخراجات کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر ناصر نے مزید بتایا کہ اس دوران بازاروں میں یوریا فروخت کرنے والے افراد کے خلاف کاروائیاں کی گئیں جو کاشتکاروں سے مارکیٹ ریٹس سے زائد قیمتیں وصول کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا وزیراعظم ایمرجنسی پروگرام کے تحت گنا، تیل دار اجناس، چاول اور گندم کی کاشت کے منصوبے شامل ہیں جن میں وفاقی حکومت 40 فیصد اور 60 فیصد مدد صوبائی حکومت کرتی ہے جس کا مقصد فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے حکومت نے سستا بازار قائم کئے جہاں پر وہ اپنی فصل بغیر کسی کمیشن کے فروخت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم نے مختلف اضلاع پر فیلڈ ڈے قائم کئے ہیں جن میں کاشتکاروں کو آگاہی دی جاتی ہے کہ کون سے تخم کون سے موسموں میں اگائے جاتے ہیں، اس کا مقصد بھی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہے۔