لائف سٹائل

فیک میسج نے ایک دن میں سو لوگوں سے رقم لوٹ کر بے وفوف بنایا

 

ناہید جہانگیر

ایک دفعہ تو سب دوستوں نے پلان بنایا تھا کہ جا کر فری میں لنچ کریں لیکن میک ڈونلڈز جاکر پتہ چلا کہ کوئی فری پیکج نہیں ہے۔

پشاور یونیورسٹی روڈ پر واقع ایک نجی دفتر میں کام کرنے والی شازیہ کہتی ہیں کہ اب تو فیک میسج کے بارے میں لوگوں میں کافی آگاہی آگئی ہے لیکن چند سال پہلے وہ خود بھی ایک فیک میسیج سے متاثر ہوئی ، میسیج کچھ اس طرح کا تھا کہ اس میسج کو 10 لوگوں کو بھیجنے سے 4 بندے میک ڈونلڈز ریسٹورانٹ میں مفت فاسٹ فوڈ کھانے کا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

شازیہ اور انکے ساتھ دفتر کی 3 سہیلیاں میسیج فاروڈ کرنے کے بعد وہاں پہنچی لیکن وہاں جاکر پتہ چلا کہ یہ کوئی جھوٹا میسج تھا اس طرح کا کوئی خاص پیکیج نہیں تھا۔

خیبر پختونخوا ویڈنگ ہالز اور ہوٹلز کے ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق پورے خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ 4 سو 60 جبکہ پشاور میں 1 سو 60 شادی ہال ہیں۔ اسی طرح پورے خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ ریسٹورانٹ کی تعداد 3 ہزار 4 سو ہیں جبکہ پشاور میں 7 سو 80 ہیں۔

فیک میسیج کے حوالے سے  پشاور یونیورسٹی روڈ پر واقع ایک مشہور فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹ چیف گرل کے سپروائزر وحید خان کا کہنا ہے کہ اکثر اس طرح ہوتا ہے کہ ایک دم سے فیملیز اور لوگوں کا رش بڑھ جاتا ہے جن کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے  اور سب پیکیج فوڈ آئٹم کا مطالبہ کرتے ہیں ،بعد میں پتہ چلتا ہے کہ انکو کسی نے غلط معلومات کا شکار بنایا ہے۔

وحید خان نے کہا کہ اس قسم کے میسیجز سے فیملز کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہوٹل یا ریسٹورانٹ کے عملے کو بھی کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے ساتھ میں ایک ایک کو وضاحت کرنا بھی ایک کھٹن مرحلہ ہوتا ہے۔

ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سپروائزر نے بتایا کہ ایک دن 100 کے قریب لوگ آئے اور اپنی ریزرویشن کا کہا کہ انہوں نے 700 فی ہیڈ کے حساب سے پیمنٹ کی ہے  بعد میں پتہ چلا کہ کسی نے دھوکے سے 100 لوگوں سے فی فرد 700 روپے لیے تھے کہ چیف گرل میں رات کے کھانے کے لئے انکی بکنگ ہوگئی ہے۔ اس دن نا صرف انکو اتنے لوگوں کو سمجھانا کافی مشکل ہوگیا تھا کیونکہ انکو 7 سو کا چونا لگا کر دھوکے سے بلایا تھا دوسری اہم بات کافی شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ عملے کو اس طرح کا معاملہ نمٹانا بھی ایک امتحان سے کم نہیں ہوتا کیونکہ ایسا نا ہو امیج خراب ہوکر کاروبار ہی خراب نا ہوجائے۔

وحید خان کے مطابق لوگوں کو چاہئے کہ جب بھی کوئی اسطرح کا کوئی میسج یا کال ہوتو انکے آفیشل پیج کا وزٹ ضرور کریں یا آفیشل نمبر پر رابطہ کریں اور کسی کے دھوکے یا مذاق کا حصہ نا بنے۔

رابعہ جو پشاور شہر کی رہائشی ہیں کہتی ہیں کہ ایک دفعہ اسکو ایک سروے فارم کا لنک موصول ہوا جس کو فل کرنے سے جو پوائنٹس ملیں گے اس سے چیف برگر فری ہوم ڈیلیوری موصول ہوگا۔ وہ فارم فل کیا لیکن آج تک کوئی فری ہوم ڈیلیوری برگر نہیں ملا۔ دکھ اب اس بات کا نہیں ہے کوئی برگر نہیں آیا اس بات کا ہے کہ اس میں کافی زیادہ ذاتی معلومات کے حوالے سے سوالات تھے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کب احساس ہوا کہ یہ فیک میسیج تھا تو انہوں نے کہا کہ ایک تو اس لنک کو مزید 10  لوگوں بھیجنا تھا  وہاں سے شک ہوا دوسری اہم بات یہ کہ ابھی تک کوئی کھانے کی چیز گھر کے پتے پر نہیں پہنچی۔

مختلف ہوٹلوں یا ریسٹورانٹ سے فری یا خصوصی رعایت پر ملنے والے پیکج کے غلط یا فیک میسج کے حوالے سے خیبر پختوانخوا کے شادی ہالوں، ہوٹلوں اور ریسٹورانٹ کے ایسوسی ایشن اور پاکستان کے تمام شادی ہالوں کے صدر خالد  ایوب کا کہنا ہے کہ نا صرف کھانے پینے کے حوالے سے بلکہ  سونے یا نقد انعامات کے متعلق بھی فیک میسجز موصول ہوتے ہیں جن سے لوگوں کو لوٹا یا گمراہ کیا جاتا ہے۔  جہاں تک مختلف ہوٹل یا رسٹورنٹ کی بات ہے تو بالکل اس حوالے سے بھی کافی فیک میسجز کئے جاتے ہیں کہ فلان فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹ میں خصوصی رعایت پر آئٹمز دی جارہی ہے یا فری میں رعایت مل رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔

خالد ایوب کے مطابق کچھ سال پہلے لوگ جلدی یقین کرکہ متعلقہ ریسٹورانٹ کی جانب بھاگے چلے جاتے تھے لیکن اب میڈیا کے اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے اور کئ بار دھوکہ کھانے کی وجہ سے لوگوں میں کافی شعور آگیا ہے بہت جلدی اعتبار نہیں کرتے لیکن چند سال پہلے کافی مسائل پیش آ رہی تھی۔

اس قسم کے حالات کو کسطرح کنٹرول کیا جاتا ہے کہ سوال کے جواب میں ایسوسی ایشن صدر نے کہا کہ ہر ہوٹل اور رسٹورانٹ کا اپنا اپنا سوشل میڈیا پیج ہے اسکے ساتھ نیٹ پر سرچ کرنے سے معتقلہ رسٹورانٹ کا رابطہ نمبر آسانی سے مل جاتا ہے لوگ کسی بھی حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے لئے ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں اور جب بھی کوئی مسلہ پیش آتا ہے تو متعلقہ ہوٹل اپنے پیج پر شئر کر دیتا ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا غلط۔

خالد ایوب نے بتایا کہ جو ہوگیا وہ تو ہوگیا لیکن آج کل اس سوشل میڈیا کے دور میں بھی اگر کوئی آنکھیں بند کرکہ افواہ پر یقین کرتا ہے تو زیادتی ہے۔ حالات زیادہ سنگین ہونے کی صورت میں پھر ایف آئی اے سے مدد لی جاسکتی ہے۔

صدر خالد ایوب کے مطابق ابھی تک ان کی اور کسی بھی ریسٹورانٹ کی جانب  سے ایف آئی اے کے ساتھ کوئی شکایت درج نہیں کی گئی وجہ یہ ہے کہ ایف آئی اے کے پاس جانے سے کیسز کافی تاخیر کا شکار ہونگی اور دوسری جانب کافی حد تک خود ہی اس مسلے پر قابو پالیا گیا ہے جیسے اسی وقت اپنے اپنے سوشل میڈیا پیج سے بتایا جاتا ہے کہ یہ میسج جعلی ہے اور لوگوں میں خود بھی کافی آگاہی آگئی ہے پہلے کی طرح اتنی آسانی سے ہر میسج پر یقین نہیں کرتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button