109 سال پرانا لکی مروت ریلوے اسٹیشن جہاں آج خاموشی کا راج ہے
انور زیب مروت
”یہاں ایک میلے جیسا سماں ہوتا تھا، ہر طرف لوگ ہی لوگ، دکانیں، ہوٹلیں اور یہ تانگوں میں لوگوں کا آنا جانا لیکن اب نہ تو یہاں لوگ نظر آتے ہیں اور نہ وہ میلے جیسا سماں، اب تو ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔” یہ کہنا ہے بزرگ اسماعیل خان کا جن کا گھر لکی مروت ریلوے جنکشن کے قریب ہی واقع جبکہ سٹیشن کے احاطے میں ایک چھوٹی سی دکان بھی ہے جہاں اردگرد کے بچے کھانے پینے کی اشیاء خریدتے نظر آتے ہیں۔ اسماعیل خان کی طرح لکی مروت شہر کے سینکڑوں بزرگ شہری بھی اس ریلوے سٹیشن کی کہانیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے اس اسٹیشن اور یہاں چلنے والی ریل گاڑی کو بند ہوتے دیکھا ہے۔
1992 میں جب لکی مروت کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو یہاں پر پولیس لائن کو عارضی طور پر قائم کیا گیا تھا جس کو حال ہی میں یہاں سے منتقل کر دیا گیا ہے۔
لکی مروت ریلوے اسٹیشن کی قدیم اور خوبصورت عمارت انگریز دور میں (1913) تعمیر کی گئی تھی اور اسے جنکشن کا درجہ حاصل تھا۔ یہاں سے پنجاب کے ضلع میانوالی کے علاقے ماڑی، ضلع ٹانک اور بنوں تک ریل گاڑی چلتی تھی اور اسے چھوٹی ریل کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا جبکہ سرکاری طور پر اس کا نام ماڑی انڈس لائن یا ماڑی انڈس ریلوے تھا اور ابتداء میں یہ انگریز دور کے نارتھ ویسٹرن ریلوے نظام کا حصہ تھا تاہم بعد میں اس کا کنٹرول پاکستان ریلوے نے سنبھال لیا۔ اس لائن پر کوئلے اور بھاپ سے چلنے والی ریل گاڑی اپنی خاص آواز اور شکل کی وجہ سے بچوں اور بڑوں میں بے حد مقبول تھی۔ جب بھی ریل گاڑی گزرتی تو علاقے کے بچے و بڑے گھروں سے نکل کر اس کا نظارہ کرتے۔
کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے یہ ریلوے لائن اپنے فوجیوں کی نقل و حرکت کے لئے بنائی تھی تاہم بعد میں ان علاقوں کے عام مسافروں کے لئے یہ لائن کھول دی گئی اور پاکستان کے قیام کے بعد 1980 کی دہائی کے آخر تک یہ ریلوے لائن یہاں کے لوگوں کے لئے آمدورفت کا آسان و سستا ذریعہ رہی تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس کو پھر بند کر دیا گیا۔
پنجاب کے ضلع میانوالی کے علاقے ماڑی سے شروع ہونے والی اس ریلوے لائن پر گاڑی جب لکی مروت کی طرف سفر کا آغاز کرتی تو پنجاب کے علاقوں کمر مشانی، ترگ اور عیسیٰ خیل سے ہوتے ہوئے درہ تنگ کے مقام پر یہ خیبر پختونخوا یعنی ضلع لکی مروت کی حدود میں داخل ہو جاتی اور پھر لکی مروت کے دیہاتوں سے ہوتے ہوئے لکی مروت ریلوے جنکشن پہنچ جاتی۔ یہاں سے پھر ضلع بنوں تک الگ اور ضلع ٹانک تک الگ لائن تھی۔ آپ اگر لکی مروت کے ان لوگوں سے جنہوں نے اس ریل گاڑی میں سفر کیا ہو، اس سے متعلق پوچھیں تو وہ ایک کہانی کی شکل میں داستان سنانا شروع کر دیں گے جسے آج کل کے نوجوان اپنے بزرگوں سے سننا نہایت پسند کرتے ہیں۔
یہ تحریر خاص طور پر لکی مروت ریلوے اسٹیشن کے بارے میں لکھی گئی ہے جو کہ 109 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور آج بھی قائم و دائم ہے۔ اگر آپ کبھی اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت دیکھنے جائیں تو آپ کو پرانے زمانے کی لکھائی اور دیگر اشیاء دیکھنے کو ملیں گی۔ ٹکٹ گھر درجہ اول و درجہ دوم، بتی گودام، ریسٹورنٹ، ورکشاپ کمرہ اور دیگر لکھائی و تحریروں اور مسافروں کے لئے لکھی گئیں ہدایات پر اگر نظر ڈالی جائے تو ذہن میں خیال آتا ہے کہ انگریز کتنے پیشہ ور اور باکمال لوگ تھے اور انہوں نے کس طریقے اور ہنر سے اس اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی جو کہ ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔
اس وسیع و عریض ریلوے اسٹیشن کی تعمیر اور ڈیزائن کسی شاہکار سے کم نہیں ہے جبکہ پانی کی تقریباً 70 سے 80 فٹ اونچی ٹینکی اور لوہے کی پائپ ایک الگ داستان بیان کرتی ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہی انتہائی خوبصورت طرز پر تعمیر کردہ ایک گیسٹ ہاؤس بھی ہے جہاں ریلوے کے اعلیٰ افسران ٹھہرتے تھے۔ اس کے علاوہ ملازمین کی رہائش کے لئے کوئی ایک درجن سے زیادہ کوارٹرز یعنی مکانات بھی تعمیر کئے گئے تھے جو کہ آج کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔
لکی مروت ریلوے اسٹیشن کی خوبصورت عمارت عہد رفتہ کی یادگار نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں جدھر بھی نظر دوڑائی جائے تو ہر طرف پرانے زمانے کی یادیں ہی نظر آئیں گی اسی لئے یہ ریلوے اسٹیشن اب ایک تاریخی ورثہ بن چکا ہے جو کہ حکومتی توجہہ کا مستحق ہے۔ انگریز نے جس مہارت سے اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی، وہ ایک مثالی تاریخ رقم کر کے چلے گئے۔ یہاں کے رہائشی بزرگ اسماعیل خان سمیت کئی دوسرے افراد نے بتایا کہ ریلوے اسٹیشن کی یہ تاریخی عمارت ایک زمانے میں مسافروں کو خوش آمدید کہتی تھی اور یہاں پر ہر طرف لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے تاہم اب یہ ایک سنسان بیابان بن چکا ہے۔ اب نہ تو یہاں پر لوگ نظر آتے ہیں اور نہ ہی کوئی رونق۔ اب اگر آپ لکی مروت کے کسی بھی شہری خاص کر بزرگوں سے اس اسٹیشن کے متعلق بات کریں تو وہ یہی کہیں گے کہ کاش کہ اس اسٹیشن کی رونق پھر سے لوٹ آئے اور یہاں پر ریل سروس بحال ہو جائے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہاں پر کوئلے سے چلنے والی نیرو گیج لائن کو اپ گریڈ کر کے براڈ گیج لائن بچھا کر تیل سے چلنے والی ریل گاڑی شروع کی جاتی تاہم معاملہ اُلٹ ہو گیا اور چھوٹی ریل کو بھی بند کر دیا گیا۔
یہاں کے رہاشیوں کا مزید کہنا تھا کہ جب 1980 کی دہائی کے آخر میں اس ریلوے لائن کو نامعلوم وجوہات کی بناء پر بند کر دیا گیا تو پٹڑیاں و دیگر سامان کچھ سالوں تک تو موجود تھا تاہم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت 98-1997 میں محکمہ ریلوے نے تمام ساز و سامان نیلام کر دیا، پٹڑیاں اکھاڑ دی گئیں اور صرف ریلوے اسٹیشن کی عمارت ہی رہ گئی۔تاہم ضلع میں دریائے گمبیلا پر دو مقامات پر لوہے سے بنے دو مضبوط پل آج بھی مضبوطی سے قائم و دائم ہیں۔ اسی طرح ضلع میں محکمہ ریلوے کی وسیع و عریض اراضی پر تجاوزات قائم کئے گئے ہیں اور محکمہ ریلوے کی طرف سے کئی مرتبہ تجاوزات کے خلاف آپریشن بھی کیا جا چکا ہے۔
اس ریلوے اسٹیشن اور ریل گاڑی کے متعلق بہت سے لوگوں سے جب بات کی گئی تو سب نے ایک ہی مطالبہ کیا کہ حکومت کا کام عوام کو بہترین سفری سہولیات فراہم کرنا ہے اور ایسے میں اس علاقے کے لوگوں کے لئے یہ ریلوے سروس دوبارہ بحال کی جائے تاکہ یہاں کہ لوگ بھی ریل جیسی سستی سہولت سے مستفید ہو سکیں۔