حکومت اگر روزگار دے نہیں سکتی تو چھیننے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتی
انیلا نایاب
کچھ دن پہلے اخبار پڑھ رہی تھی تو نظر سے ایک خبر گزری کہ حکومت پاکستان نے لاہور میں رکشہ بننے والی کمپنیوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور رکشوں کی نیلامی کے بعد انکو بھی کرش کیا جائے گا کیونکہ رش کی وجہ سے کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت نے بڑھتے ہوئے رش کو کم کرنے کے لئے یہ فیصلہ لیا ہے آبادی کے شرح میں اضافے سے ٹریفک رش بھی بڑھ گیا ہے اور عوام کو کافی مشکلات کا سامنا ہے جو راستہ 15 منٹ میں طے ہوتا ہے رش کی وجہ سے 50 سے 60 منٹ میں طے ہوتا ہے بعض اوقات تو انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے صبح سکول کالجز دفاتر کے اوقات اور پھر چھٹی کے وقت یہ رش انتہائی عروج پر ہوتا ہے۔
حکومت کے پاس کوئی اور حل نہیں ہے جس طرح پشاور میں وین اور بسوں کو بھی تقریبا ختم کردیا ہے چلو انکی جگہ تو بی آر ٹی سروس نے لے لی ہیں جو ان بسوں اور وین سے کافی بہتر سواری ہے لیکن رکشہ سسٹم کو ختم کر کہ نا صرف بے روزگاری ہوگی بلکہ بزرگ لوگ کیسے سفر کریں گے جن کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے۔
ایک طرف تو حکومت عوام کے اس مسلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف اس سے کئی دوسرے مسائل جنم لینے کا خطرہ ہے کچھ مہینے پہلے پشاور انتظامیہ نے بھی ایک فیصلہ کیا تھا کہ جس جس روٹ پر بی آر ٹی سروس ہے ان روٹ سے بالکل رکشوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ بی آر ٹی تو مین روڈ پر چلتی ہیں لنک روٹس پر لوگ کیا کریں گے انتظامیہ تو اسکا حل بھی نکالیں۔
اگر دیکھا جائے تو ایک طرف تو رش ختم ہو جائیگا لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو رکشہ چلا کر اپنا گھر بار چلاتے ہیں ان کو دوسرا کوئی ہنر بھی نہیں آتا وہ کیا کریں گے؟ویسے بھی بے روزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے۔
بی آر ٹی سٹاپ تو رہائشی علاقوں سے کافی دور ہے بزرگ خواتین و حضرات کا بی آر ٹی میں سفر کرنا مشکل کیا نا ممکن ہے بی آر ٹی رات دس بجے تک چلتی ہے اگر کسی کے گھر کوئی ایمرجنسی هو وہ بھی رات کو دس بجے کے بعد پیش آئے تو کیا کریں گے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر کسی کے گھر میں گاڑی ہو دوسری اہم بات یہ ہے کہ پشاور شہر میں تنگ تنگ گلیاں ہیں جہاں رکشے آسانی سے گزر سکتے ہیں اور آسانی سے ہر گلی ہر جگہ سے مل بھی جاتی ہے جبکہ ٹیکسی کا آسانی سے ملنا مشکل ہے اور اگر مل بھی جائے تو اس کا کرایہ ادا کرنا ایک غریب کے بس کی بات نہیں ہے انکا کا کرایہ رکشہ کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔
ویسے بھی سی این جی کی بندش اور پٹرول کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے رکشہ و ٹیکسی کے کرائے آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں کبھی تو رکشہ ڈرائیور کے رویے کو دیکھ کر سوچتی ہوں کہ ہر فرعون کے لئے موسٰی ہوتا ہے جب بھی رکشہ میں کوئی سفر کرتا ہے تو گھر سے دور اتار دیتا ہے اور کبھی تو جس کرایہ پر بات طے ہوتی ہے منزل پر پہچنے کے بعد نوٹ سے زیادہ پیسے کاٹ دیتے ہیں کہ کافی دور تک لے آئی ہو میڈم ، شاید اللہ نے بھی ان لوگوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔
لیکن خیر کسی کو بے روزگار کرنا کہاں کا انصاف ہے حکومت اگر کسی کو روزگار نہیں دے سکتی تو روزگار چھینے بھی تو نہ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واقعی پشاور اور اسکے ارد گرد ٹریفک رش کافی بڑھ گیا ہے لیکن یہ بھی حل نہیں ہے کہ بالکل ہی رکشوں کو ختم کیا جائے اسکا متبادل حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔