”تم مجھے بیٹا کبھی نہیں دے سکتی، میں تو کروں گا دوسری شادی!”
عائشہ یوسفزئی
پشاور کے علاقے بڈھ بیر سے تعلق رکھنے والی روبینہ دو بار اپنی اولاد پیدا ہونے سے پہلے ہی کھو چکی ہیں۔ ایسا بالآخر کیوں ہوا؟ اس پر تو بات کریں گے لیکن اس سے پہلے اگر عورت ذات کے احساسات پر بات کی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عورت کے محرم رشتے اگر اسے پیار اور عزت دیں تو وہ کبھی زندگی کے سفر میں خود کو تنہا محسوس نہیں کرتی۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں روبینہ نے اپنی دکھ بھری کہانی سناتے ہوئے بتایا: میں نے پشتون گھرانے میں پرورش پائی اور جوان ہوتے ہی سہانے سپنوں کے ساتھ پیا گھر سدھار گئی مگر شادی کے پہلے ہی مہینے سسرالیوں نے میرے سامنے لڑکا پیدا کرنے کی آرزو ظاہر کی لیکن قدرت کو مجھے بیٹی کی ماں بنانا منظور تھا۔
بیٹی کی پیدائش کے بعد سسرالیوں نے زندگی اجیرن کر رکھی تھی اور بار بار بیٹی کی ماں ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ جب دوسری مرتبہ حمل سے ہوئی تو ساس اور سسر نے دھمکی دی کہ اگر دوسری لڑکی ہوئی تو ہم اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرا دیں گے جس کے بعد میں وسوسے اور پریشانی کا شکار ہونے لگی، اس دوران میرے شوہر کو بھی دوسری شادی کی ہوا لگ گئی جس کی وجہ سے شوہر نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے بیٹا کبھی نہیں دے سکتی، میں تو کروں گا دوسری شادی!
پھر کیا تھا۔۔ اس ڈر کے ساتھ دن رات گزارتی کہ کہی سوتن نہ آ جائے، میرا کیا ہو گا۔ یہ سوچ کر میرا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ میںرے دل اور دماغ پر کیا گزر رہی ہے، دوسری بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی سسرالیوں نے مجھ سے منہ پھیر لیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ میں پھر دو مرتبہ امید سے ہوئی لیکن دونوں مرتبہ میرا مس کیرج ہو گیا یعنی حمل ضائع ہو گیا۔ جب گائنی ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے کہا کہ صحت مند غذا کی کمی، ذہنی اور جسمانی آرام نہ ہونے کی وجہ سے آپ کا حمل ضائع ہوا اور دونوں بار بیٹا ہی تھا۔ خیر جو بھی تھا آخر میں نے نصیب کا لکھا سمجھ کر برداشت کر ہی لیا۔ رہی بات شوہر کی تو اس نے دوسری شادی کر لی جس کے بعد خدا کے ڈر سے اپنے شوہر کے سارے حق ادا کرتی رہی اور سوتن کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے لگی۔ آخر قدرت کو بھی مجھ پر رحم آیا اور مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا جبکہ سوتن میری دو سال بعد بھی اولاد کی نعمت سے محروم ہے۔”
مس کیرج کی سائنسی و میڈیکل وجوہات
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو میں ایل آر ایچ کی گائنی ڈاکٹر تنویر شفقت نے بتایا کہ مس کیرج حمل کے اگر دوسرے تیسرے مہینے میں ہو جائے تو اس میں بعض اوقات بچے کے دل کی دھڑکن نظر نہیں آ رہی ہوتی یا پھر کسی موروثی بیماری کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے، ”اس کو ہم ”مس مس کیرج” کہتے ہیں۔ اکثر اوقات کچھ خواتین میں بلیڈنگ شروع ہو جاتی ہے اور بچہ کچھ حد تک ضائع ہو جاتا ہے تو یہ نامکمل مس کیرج میں شمار ہوتا ہے۔ پھر پانچویں سے ساتویں مہینے میں جو مس کیرج ہوتا ہے اس کے اسباب میں عورت کی بچہ دانی کی کمزوری بھی ہوتی ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ حمل کے چھٹے تا ساتویں مہینے میں بچہ نارمل گروتھ کر رہا ہوتا ہے مگر پھر وقت سے پہلے درد کی وجہ سے عورت کی بچہ دانی کھل جاتی ہے اور یوں بچہ ضائع ہو جاتا ہے لیکن ایک چیز جو کہ حمل کے وقت حمل کو کمزور کرتی ہے وہ پریگننسی کے وقت بھاری چیزیں اٹھانا یا پھر زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جانا ہے۔”
آئی وی ایف علاج کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ایسی صورتحال کہ جس میں بالکل اولاد پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہ آتی ہو تو ایسے میں پھر ڈاکٹرز آئی وی ایف جو کہ ایک مصنوعی طریقہ ہے جس میں عورت کی بچہ دانی سے اووم اور شوہر سے سپرم لے کر باہر ایک اچھے سے ماحول میں ایک خاص طریقے سے ان کی گروتھ کرائی جاتی ہے اور پانچویں ہفتے میں پھر بچہ دانی میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں کہ جو اپنی خواہش کے مطابق بیٹا یا بیٹی کی تمنا رکھتے ہوں، اس کے علاوہ جن خواتین یا پھر مرد حضرات میں کمزوری ہو ان کے لئے بھی یہ علاج ممکن ہے لیکن اس کا خرچہ بہت زیادہ ہے، تقریباً پانچ سے سات لاکھ جو ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا، اس کے سنٹرز پورے پاکستان سمیت پشاور میں بھی موجود ہیں۔
سروگیسی ٹریٹمنٹ بارے، جو کہ آج کل مغربی ممالک میں زیادہ ترعام ہے، تنویر شفقت نے بتایا کہ اس میں کرائے کی ماں حاصل کی جاتی ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو عورت اپنی کوکھ میں حمل نہیں پالنا چاہتی تو وہ عورت پھر آئی وی ایف کے عمل سے گزرنے کے بعد جو بچہ بن رہا ہوتا ہے تو وہ دوسری عورت کی بچہ دانی میں شفٹ کر دیتی ہے مشینوں کے زریعے اور وہ بچہ پھر پیدائش تک دوسری ماں کے پیٹ پیں نشونما پاتا ہے، ”اس کے علاوہ جینیٹک انجینئرنگ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں حمل ٹھہر جانے کے بعد کچھ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں اس لئے کہ پیدا ہونے والے بچے میں معذوری یا موروثی بیماری کے اثرات کے بارے معلومات حاصل کی جائیں کیونکہ بہت سے خاندانوں میں موروثی بیماریاں نسل در نسل چلتی رہتی ہیں تو اس طرح کی کنڈیشن میں اس طریقہ تشخیص کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
اسلام کیا کہتا ہے؟
ٹی این این نے اس حوالے سے اسلامی نقطہ نظر جاننے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں مفتی اکرام اللہ اور پشاور یونیورسٹی کے شیخ زید اسلامک سنٹر کے ریسرچر ڈاکٹر عبدالرحمان خلیل سے گفتگو کی ہے جن کا کہنا تھا کہ جہاں تک اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے تو انسان اللہ کی تمام مخلوقات میں سے ایک حسین اور جامع تخلیق ہے اور اسی لئے اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے، پھر اس میں لڑکے کو نعمت اور لڑکی کو رحمت کے طور پر پیش کیا ہے، ان دونوں کو الگ الگ ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں: ”قرآن شریف میں ارشاد باری تعالی ہے، میں نے کسی کو بیٹی عطا کی تو کسی کو بیٹا عطا کیا اور کوئی نہیں کہ کسی کو اولاد سے نواز دے مگر کسی کو کبھی کچھ نہیں دیتا یعنی نہ بیٹا اور نہ بیٹی۔
عرب میں جہالت کا یہ عالم تھا کہ وہ عورتوں کو ناقص اور کم تر سمجھتے تھے، ہمارے ہاں بعض جگہوں میں آج بھی یہ سوچ قائم ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں کسی بھی بیماری کے علاج کی ممانعت کہیں بھی نہیں کی گئی ہے لیکن بچے کی پیدائش کا طریقہ اس صورت میں جائز قرار دیا گیا ہے کہ جس میں بچے کی پیدائش شریعت کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق ہو، ”اب اگر سروگیسی کا ذکر کیا جائے تو یہ شریعت میں گناہ تصور کیا جائے گا اور یہ اولاد ناجائز ہو گی یعنی غیرشرعی طریقہ علاج قابل قبول نہیں ہے۔”
معاشرے کو صحیح راہ پر گامزن کرنے کے حوالے سے دونوں شخصیات نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس تناظر میں علماء کرام کا بہت اہم کردار ہے، پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے جو کہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اس جیسے مسائل پر کام کرتا آ رہا ہے، اس کے علاوہ منبر و محراب سے مسجد کے علماء اور فاضل لوگوں کو اپنی تقاریر میں عوام میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔