”میرے بھائی کی موت پھوپھیوں کے جادو ٹونے سے ہوئی ہے”
نشاء عارف
اکثر لوگوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ فلاں جادو سے مر گیا یا جس لڑکی کا رشتہ نہیں ہوتا تو سنتے ہیں کہ کسی عالم سے دم کر والو یا اس کے اچھے نصیب کے لیے تعویذ کرو۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والی حمیرا کی کہانی بھی کچھ اس طرح سی ہے، ماں باپ کے مرنے اور پھر چھوٹی بہن کی شادی کے بعد ہر کسی کو اس کی شادی کی فکر تھی لیکن رشتہ ہوتے ہوتے کسی نا کسی وجہ سے رہ جاتا۔
حمیرا کو خود اگرچہ تعویذ یا دم پر کوئی یقین نہیں تھا لیکن بڑی بہن کے اصرار پر ایک مفتی صاحب کے پاس گئی جس نے ایک وظیفہ پڑھنے کو کہا اور ساتھ میں ایک تعویذ بھی دی کہ اس کو گلے میں ڈال دیں، مہینے بعد واقعی رشتہ طے ہو گیا۔
دوسری جانب پشاور کی رشیدہ اپنی پھوپھیوں پر الزام لگا کر کہتی ہیں کہ کا ان کا بڑا بھائی ان کے جادو ٹونے سے مر گیا ہے، کہتی ہیں کہ پھوپھی کی بیٹی سے ان کے بھائی کا رشتہ بچپن میں طے ہوا تھا لیکن بھائی نے طے شدہ رشتے سے انکار کر کے پسند کی شادی کر لی تھی، بھائی کی تھوڑی سی طبیعت خراب ہوئی اور آہستہ آہستہ بستر مرگ ہوئے۔
رشیدہ کو اس لیے یقین ہے کہ یہ سب جادو کا اثر تھا اور یہ کسی اور نے نہیں ان کی پھوپھیوں نے کیا تھا کیونکہ پشاور سے اسلام اباد تک کوئی بھی ڈاکٹر بھائی کے مرض کی تشخیص نا کر سکا اور کچھ ہی دنوں میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔
خیبر پختونخوا سمیت پورے پاکستان میں لوگ جادو،د م اور تعویذ پر یقین کرتے ہیں۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے، مفتی غلام ماجد، سینئر ریسرچ آفیسر اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد، نے اس حوالے سے ٹی این این کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں جو بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے اور لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے لیکن دنیا میں کچھ اسباب کی طرف چیزوں کو منسوب کیا جاتا ہے جیسے مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں بندہ مر گیا اور اس کی موت فلاں بیماری سے ہوئی یا فلاں بندہ زریعہ بنا تو رشتہ ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح صحیح اور درست تعویذ بھی اک حقیقت ہے کہ وہ ایک زریعہ اور سبب بنتا ہے، بیمار کی شفا کے لیے جیسے دوائی ایک سبب یا زریعہ ہے تو دم اور تعویذ بھی ایک سبب ہے۔
شادی کے لیے تعویذ پر بات کرتے ہوئے مفتی غلام ماجد نے کہا کہ بالکل وقت پر مناسب رشتہ ہونے کے لیے تعویذ کیا جا سکتا ہے، جہاں تک جادو کرنے کی بات ہے تو اس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، سلیمان علیہ السلام کے دور میں ان کی قوم جادو کرتی بھی تھی اور سکھاتی بھی تھی، جادو کے زریعے وہ لوگ میاں بیوی میں تفریق یا لوگوں میں لڑائی جھگڑے کراتے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جادو بھی ایک حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اسلام و احادیث میں جادو کا ذکر موجود ہے، اگر واقعی کسی کو جادو کا علم ہے تو اثرات ہوں گے لیکن اسباب کے طور پر کیونکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔