پشاور: روزانہ 50 سے زائد جوڑے کورٹ میرج کے لئے عدالت کا رخ کرتے ہیں، وجہ کیا ہے ؟
سلمی جہانگیر
"جب بہن کی شادی ہوئی تو قرض اور رشتے داروں کے احسانوں کے بوجھ تلے دب چکے تھے۔ تب ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ جب بھی شادی کروں گی کورٹ میرج ہی کروں گی تاکہ والدین کو جہیز نا دینا پڑے اور نہ ہی شادی کی فضول کی رسومات اور اخراجات پر پیسے خرچ کرنے پڑیں۔”
یہ کہنا ہے پشاور کی رہائشی کنول سلیم کا جنہوں نے کورٹ میرج کا فیصلہ اس وقت ہی کر لیا تھا جب ان کی بڑی بہن کے لئے رشتے آتے اور جہیز کا مطالبہ کرتے تھے۔ غریب گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے والدین یہ مطالبات پورے نہیں کر سکتے ۔بہن کا رشتہ اسی لیے ہوتے ہوتے رہ جاتا اور ان کی شادی کی عمر گزرتی گئی۔
یہ سلسلہ کئی برسوں تک چلتا رہا اور آخرکارکنول کے والدین نے رشتے داروں اور جاننے والوں سے قرضہ لے کران کی بہن ذکیہ کی شادی کروا دی۔ ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں کنول نے بتایا کہ ” ذکیہ کی شادی کے بعد ہم قرض اور رشتے داروں کے احسانوں کے بوجھ تلے دب چکے تھے۔ تب میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر شادی کروں گی تو جہیز نہیں لے کر جاؤں گی اور اپنے ماں باپ کو کسی اور کا احسان مند نہیں بناؤں گی اسی لیے ارادہ کیا کہ جب بھی کروں گی کورٹ میرج ہی کروں گی۔
کنول کے مطابق وہ ایک نجی ادارے میں کام کرتی تھی وہاں انہیں سلیم (شوہر) نے پروپوز کیا۔ کنول نے شرط رکھی کہ اگر عدالتی نکاح کر سکتے ہو تو میں رضا مند ہوں اور اسی طرح کنول نے سلیم کے ساتھ کورٹ میرج کر لی۔
یہ تو ایک کنول کی کہانی ہے لیکن رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہونے کے لیے مختلف وجوہات کی وجہ سے کورٹ کا رخ کرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ برسوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
آن لائن دستیاب ڈیٹا کے مطابق سال 2017 کے مقابلے میں 2018 میں عدالتی نکاح یا کورٹ میرجز کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ پشاور شہر میں سال 2017 میں کورٹ میرج کرنے والوں کی تعداد 500 سے زائد تھی جب کہ 2018 میں یہ تعداد تقریباً550 تک پہنچ چکی تھی۔اس کے بعد ہر گزرنے والے برس میں ان نمبروں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ایڈوکیٹ ظہور خٹک کے مطابق 2021 میں یہ تعدادتقریباً 800 تک پہنچ گئی جس کے بارے میں بھی وکلاء اور نکاح خواہوں کی رائے مختلف ہے.
کورٹ میرج کے لئے عدالتوں کا رخ کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے اعداد و شمار کے حوالے سےجب وکلاء اور نکاح خواہوں سے گفتگو کی گئی تو معلوم ہوا کہ روزانہ تقریباً 50 سے زائد لڑکیاں کورٹ میرج کیلئے مختلف کورٹس کے نکاح خواہوں سے رجوع کرتے ہیں۔
جبکہ دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ کےایڈوکیٹ عرفان گل زئی کے مطابق2020 اور 2021 میں کورٹ میرجز کی شرح2018 اور 2019 کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے. ان کے مطابق سالانہ تقریباً 400 تک کورٹ میرجز ہوتی ہیں. روزانہ کی بنیاد پر 2 سے 3 جوڑے پشاورکورٹ کا رخ کر کے عدالتی نکاح کرتے ہیں. انکے مطابق عدالتی نکاح کرنا اتنا آسان عمل نہیں ہے.
نکاح خواہ (جو کہ کورٹ میں موجود ہوتے ہیں) کے مطابق کورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں میں 15 سال سے لے کر 24 سال کی عمر کا تناسب زیادہ ہے جن میں سے اکثر لڑکیوں کے شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہوتے۔
اس حوالے سے اگر پاکستانی قانون کو دیکھا جائے تو قانون کے مطابق نکاح کے لیے لڑکے کی عمر 18 سال اور لڑکی کی عمر 16 سال ہونی چاہئے۔ اگر شناختی کارڈ نا ہو تو فارم ب یعنی برتھ سرٹیفیکیٹ یا تعلیمی اسناد موجود ہونے چاہئیں جس سے عمر کا تعین کیا جا سکے۔ نکاح کے بعد نکاح خواں اپنی یونین کونسل سے نکاح رجسٹرڈ کروا دیتا ہے اور اس طرح عدالتی نکاح مکمل ہوتا ہے۔قانون میں یہ ضروری نہیں کہ نکاح خواں صرف مولوی ہو گا۔ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کا نکاح ڈی سی رجسٹر کروا سکتا ہے۔
احتشام خان جو گزشتہ دس سال سے صحافت سے وابستہ ہے خصوصاً کورٹ رپورٹنگ سے ، ان کے مطابق کورٹ میرج کے کیسز میں اضافے کی چند بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے پہلی وجہ آج کل کے دور میں آسانی سے رابطہ ہوناہے یعنی موبائل فون اور خاص طور پر جب سے اینڈرائیڈ ٹیکنالوجی آئی ہے دیہات ہو یا شہر، لڑکیوں اور نوجوانوں کی اجنبی ہوتے ہوئے بھی بہت جلد دوستی اور پھر بات شادی تک پہنچ جاتی ہے ۔ والدین کی مرضی یا خاندانی روایات کے مطابق نہ ہونے سے لڑکے اور لڑکی کو کورٹ میرج کرنا پڑتی ہے ۔خیبرپختونخوا میں دوسرے صوبوں کی نسبت کورٹ میرج کےکیسز کم سامنے آتے ہیں اور اگر مقامی روایات کے برعکس لڑکا اور لڑکی کورٹ میرج، پسند کی شادی کرتے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ انھیں زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے یعنی غیرت کے نام پر لڑکے اور لڑکی کا قتل ۔ احتشام خان نے اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ پشاور میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران چمکنی، خزانہ، داودزئی، بڈھ بیر اور یکہ توت میں جوڑوں کو غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
رمشاء امین جن کا تعلق پشاور کے علاقے چمکنی سے ہے، ان کے مطابق انہوں نے اس لیے عدالتی نکاح کیا کیونکہ ان کا رشتہ بچپن سے اپنے چچا زاد سے طے ہو گیا تھا لیکن خاندانی تنازعات کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی تھی۔ رمشاء نے بتایا کہ ان کی شادی کی عمر گزر رہی تھی اس لیے ان کے چچا زاد نے عدالت سے رجوع کیا اور اس طرح دونوں نے اپنے گھر والوں کی اجازت کے بغیر کورٹ میرج کر لی۔
ایڈوکیٹ طارق افغان کے مطابق جب لڑکا اور لڑکی ایک دوسر ے کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے گھر چھوڑ دیتے ہیں تو اپنے آپ کو قانونی طور پر تحفظ دینے کیلئے وہ عدالت کا رخ کرتے ہیں اور عدالتی نکاح یا کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں اکثر لڑکے کے گھر والے تو ایسی شادی کو قبول کر لیتے ہیں لیکن لڑکی کے خاندان کے لئے یہ عزت کا معاملہ بن جاتا ہے۔
کورٹ میرج کے حوالے سے سے پشاور سے تعلق رکھنے والے مفتی ضیاء اللہ کا کہنا ہے کہ لڑکااور لڑکی کو چاہیے کہ والدین اور اپنے بڑوں کی رضامندی سے شادی کریں لیکن اگر گھر والے نہیں مانتے اور دونوں اپنی مرضی سے شادی کر لیتے ہیں تو ان کو غیرت کے نام پر قتل کرنا ناجائز ہے کیونکہ ان کے پاس کورٹ میں کیا گیا نکاح نامہ موجود ہوتا ہے اور ایسے میں ان کو قتل کرنے کی اجازت کسی کو نہیں، ان حالات سے بچنے کیلئے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے پوچھ کر ان کی شادیاں کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ والدین اپنے بچوں کو عزت دیں اور بچے اپنی شادی کے فیصلے خود نہ کریں۔ اسی میں ، برکت بھی ہے، رحمت بھی ہے اور اس میں والدین کی دعایئں بھی۔
سماجی کارکن سائرہ کا کہنا ہے کہ بالغ لڑکا، لڑکی اپنی پسند اور مرضی سے قانون کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حق ان کو قرآن وحدیث اور ملکی قانون نے دیا ہے مگر افسوس ہمارے سماج نے ابھی تک نہ دیا یہی وجہ کورٹ میرج میں اضافے کا سبب بھی ہے۔
سائرہ نے بتایا کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے لڑکے اور لڑکیوں میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے فیصلہ کرنے کا اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی تک پاکستانی معاشرے میں پسند کی شادی کو اکثریت بہت برا خیال کرتی ہے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں لڑکی کی اپنی پسند کوئی معنی نہیں رکھتی۔ والدین کا نظریہ آج بھی یہی ہے کہ اولاد کے لئے والدین سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کر سکتا۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے لیکچرر ڈاکٹر ظفر خان کا کہنا ہے کہ آج کل کورٹ میرجز میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا ایک گلوبل ویلج میں رہ رہی ہے، لوگوں کو دوسرے ممالک کے بارے میں معلومات بہت آسانی سے مل رہے ہیں کہ دوسرے ممالک میں کیا ہو رہا ہے، وہاں رہنے والوں کو اپنے حقوق مل رہے ہیں خصوصاً لڑکے لڑکیوں کی شادی کے حوالےسے ان کی پسند نا پسند کے بارے میں۔ اس آگہی کے پیچھے ٹیکنالوجی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر ظفرنے بتایا کہ "ہمارے زمینی حقائق یا معاشرتی حقائق اب بھی دنیا سے کافی مختلف ہیں، ہمارے معاشرے میں کورٹ میرج کو قبول نہیں کیا جاتا، آج کل کے حالات کو مدنظر رکھ کر والدین کو سمجھنا ہو گا کہ نئی نسل کی تربیت نئے طریقے سے ہو رہی ہے، سوشل میڈیا کا اثر نئی نسل پر بہت زیادہ ہے اور نوجوان نسل اپنی مرضی سے شادی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اپنے بڑوں کی رضامندی کو ضروری نہیں سمجھتے، آج کل ہر بچے اور بچی کے ہاتھ میں موبائل فون ہوتا ہے اور وہ دنیا سے مکمل طور پر با خبر ہے تو والدین کو بھی وقت کی یہ نزاکت سمجھنی ہو گی کہ اگر ان کے فیصلے سے بچے ذہنی دباو کا شکار ہو جاتے ہیں یا شادی کے بعد رشتہ طلاق یا علیحدگی کی نو بت آجاتی ہے یا کوئی اور مسئلہ بنتا ہے تو ان کو چاہیے کہ اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں اور سب جنریشن گیپ ختم کر کے بچوں کو سمجھیں کورٹ میرج کی صورت میں جس معاشرتی دباو اور صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا اس سے کہیں بہتر ہے کہ والدین خود اس معاملے کو سلجھانے کے لیے شادی کے فیصلے میں اپنے بچوں سے ان کی رائے لے اور اس کو اہمیت بھی دے۔