خیبر پختونخوا میں گیس کے کم پریشر یا لوڈشیڈنگ کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
اسماء گل
پورے ملک کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی گیس کی کمی ایک شدید بحران کی صورت اختیار کر گئی ہے خصوصاً سردیوں میں اضافے کی وجہ سے اب یہ ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے اور اس بحران کی وجہ سے لوگ ذہنی اذیت اور پریشانی سے دوچار ہیں۔ گیس لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگ سلینڈر گیس استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ لکڑیاں جلانے پر بھی مجبور ہو گئے ہیں جو کہ ایک خطرناک حد تک عوام کے ماہانہ اخراجات میں اضافی کا سبب بن رہا ہے وہ اس لئے کہ بعض اوقات گیس کا پریشر اتنا کم ہوتا ہے کہ ضرورت پوری نہیں کرتا اور زیادہ تر مکمل طور غائب رہتا ہے اور یہ کچھ عرصے سے ایک معمول بن چکا ہے۔
مردان سے تعلق رکھنے والی چالیس سالہ شبانہ بی بی ایک گھریلو خاتون ہیں، وہ بھی دوسری خواتین کی طرح گیس بحران سے نالاں ہیں اور کہتی ہیں کہ گیس کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ زیادہ تر پکی پکائی چیزیں بازار سے لانے پر مجبور ہیں اور مہنگائی کی وجہ سے بازار کی خوراکی اشیاء گھر کے اتنی سارے افراد کے لیے ناکافی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا ماہانہ بجٹ بڑھ گیا ہے کیونکہ صبح بچوں کو سکول جانا ہوتا ہے، مردوں کو کام پر نکلنا ہوتا ہے جن کو بغیر ناشتے گھر سے رخصت کرنا ان کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ گیس یا تو مکمل غائب رہتی ہے یا اگر ہو بھی تو پریشر انتہائی کم ہوتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں شبانہ بی بی کا مزید کہنا تھا کہ سلینڈر گیس میں وہ دم نہیں ہوتا کہ جلدی جلدی اس پر کچھ پکایا جا سکے جبکہ بچوں کو وقت پر سکول اور مردوں کو بھی مقررہ وقت پر کام پر پہنچنا ہوتا ہے اس لئے اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو اس کے پھٹنے کا ڈر رہتا ہے دوسرے بدبو بھی پھیلتی ہے۔ شبانہ نے بتایا ”ہمارے گھر بھی اب پرانے جیسے ڈیزائن پر نہیں بنے کہ اس میں لکڑیاں جلانے کا کوئی بندوبست ہو اور ہم عادی بھی نہیں کہ آگ جلا سکیں، اس کی عدم دستیابی گھر کے سارے نظام پر اثرانداز ہو چکی ہے۔”
دسری جانب لائبہ نے بھی گیس لوڈشیڈنگ کا رونا روتے ہوئے بتایا کہ ان کے گھر میں گیس کی استری چلتی ہے اور کیونکہ بجلی تو پہلے ہی گھنٹوں غائب رہتی ہے اور اب گیس کی استری کا استعمال بھی کام نہ آیا، اکثر وہ یونیفارم استری نہ ہونے کی وجہ سے کالج سے رہ جاتی ہیں جو کہ اب ایک معمول کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس طرح گیس لوڈشیڈنگ سے نالاں فاریہ جو کہ ایک استانی بھی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ گیس نہ ہونے کے باعث وہ صبح بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکلتی ہیں اور سکول پہنچ کر ان کی طبعیت خاصی بگڑ چکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ بچوں کو صحیح طریقے سے نہیں پڑھا سکتیں۔
نوشہرہ کی رہائشی ماریہ نامی گھریلو خاتون نے بھی گیس کا رونا روتے ہوئے بتایا کہ گھر میں گیس کے نہ ہونے سے مسائل تو بہت ہیں لیکن جب مہمان آ جاتے ہیں تو مہمانوں کے لئے اہتمام کرنا خاصہ دشوار ہوتا ہے جو ان کی ذہنی کوفت میں اضافے کا سبب بنتی ہے کیونکہ ان کا گھر بہت چھوٹا ہے جہاں آگ جلانے کا انتظام بھی نہیں ہے اور سلینڈر گیس پے چائے تو بن جائے گی لیکن کھانا بنانا اور وہ بھی مہمانوں کیلئے ناممکن حد تک مشکل ہوتا ہے۔
خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات بھی مشکل کا شکار ہیں، مردان سے تعلق رکھنے والے آصف نے بھی گیس کی کمی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ گیس کی عدم دستیابی آج کل کا مسئلہ نہیں ہے، پہلے یہ لوڈشیڈنگ مخصوص علاقوں تک محدود تھی لیکن آج کل یہ ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے جو ہر فرد کیلئے اذیت کا باعث ہے۔ آصف کا مزید کہنا تھا کہ گھر کی خواتین اور ساتھ میں وہ خود بھی گیس لودشیڈنگ کے باعث مشکلات کا شکار رہتے ہیں جن میں آفس جاتے وقت نہانے کیلئے گرم پانی کا نہ ہونا، کپڑے استری نہ ہونا اور ناشتے کا تیار نہ ہونا شامل ہیں۔
حکومت نے گھریلو صارفین کیلئے دن مں تین وقت کھانا پکانے لئے فروری کے اختتام تک گیس کی سپلائی کا وعدہ کیا تھا جو وفا نہ ہو سکا، ہمارے ملک پاکستان میں گیس کی زیادہ مقدار میں پیداوار کے باوجود یہاں کے عوام گیس عدم موجودگی کے باعث رل گئے۔
مردان میں نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر ایک سی این جی پمپ کے مالک کا کہنا تھا کہ سردیوں کے آتے ہی گھریلو صارفین گیس کا استعمال بڑھا دیتے ہیں کیونکہ سردیوں میں صارفین چولہے کے ساتھ ساتھ گیزر اور ہیٹر کا استعمال زیادہ کرنے لگتے ہیں جو گیس کے کم پریشر یا اس کے مکمل طور پر غائب ہونے کا سبب بنتا ہے، دوسری بات یہ کہ سردی کی شدت کی وجہ سے گیس پائپ لائن میں جم جاتی ہے جو کہ گیس کے بحران کا ایک سبب ہے اور اس وجہ سے انہیں سی این جی کم مہیا کی جاتی ہے اور گھریلو صارفین لوڈشڈنگ سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ عام دنوں میں ایک گنا جبکہ شدید سردیوں گیس کا استعمال تین گنا بڑھ جاتا ہے۔