خیبر پختونخوا میں علاقائی زبانیں کیوں معدوم ہونے جارہی ہیں؟
عصمت شاہ گروکی
21فروری کوبین الاقوامی مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے لیکن خیبر پختونخوا میں علاقائی زبانیں معدوم ہونے کے خطر ے سے دوچارہوتی جارہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بہت سی ایسی زبانیں جن کا کسی کو علم تک نہیں مگر وہ ختم ہونے جارہی ہے۔
خیبر پختونخوا کے دور افتادہ ضلع چترال کی وادی کیلاش جس کی آبادی ساڑھے چار ہزار ہے، یہ وادی نہ صرف اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے دنیا میں الگ پہنچان رکھتی ہے بلکہ مقامی آبادی کی اپنی ہی زبان ہے اس وقت کیلاش قبیلے کی ثقافت اور زبان کو کئی خطرات درپیش ہیں، مقامی سماجی کارکن اور فلم میکر پراونہ جان نے کہاکہ یونانی حکومت کے مالی تعاون سے1990 میں کیلاشہ زبان ترقی کے لئے ایک منصوبے پر کام شروع ہوا جس کے لئے باقاعدہ ایک عمارت بھی تعمیر کرائی گئی اُن کے بقول کیلاش زبان کے حروفی تہجی، کہاوت، روایتی قصے اور عبادت کے کلمات کو محفوظ بناکر اُس کو کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا تاہم منصوبے پر کام کرنے والے 2008میں نامعلوم افرد کے ہاتھوں اغو ا ہوئے جبکہ چند مہینے بعد اُن کو رہائی تو ملی لیکن حکومت کی طرف سے دوبارہ کام کی اجازت نہیں دی گئی۔
زبیر توروالی کا تعلق ضلع سوات کی تحصیل بحرین سے ہے اور خود ادارہ برائے تعلیم و ترقی (IBT) کے سربراہ ہیں اورتعلیمی و لسانی ماہر ہونے کے ساتھ شمالی پاکستان میں اقلیتی لسانی قومیتیوں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پاکستان میں کل 76زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو،پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اور ہندکو کے بارے میں لوگ جانتے ہیں لیکن دیگر 68 زبانیں ایسی کہ جن کے بارے میں بیشتر پاکستانیوں کو خبر تک نہیں جن میں شینا، کھوار، کوہستانی، توروالی، گاؤری، ڈھاٹکی، تھری، بروششسکی، بلتی، وخی اور ارمڑی (برکی) وغیرہ شامل ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا ثقافتی لحاظ سے بہت متنوع ہے اوریہاں پشتو، ہندکو اور سرائیکی کے علاوہ بھی بیس سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ضلع چترال میں بارہ زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں کھوار، کلاشہ، پلولہ، یدغا، گوارباتی، شیخانی، دری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
زبانوں کے ڈیٹاایتھنولاگ کی تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں کم وبیش 7139 زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم دیگر زبانوں میں کئی زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں کہ ان زبانوں کی ترویج و تدوین کے لئے سرکار کی طرف سے خاطرخوا کام نہیں کیا گیا ہے۔ صوبے میں پشتو اور ہندکو کے لئے اکیڈیمیز موجود ہیں لیکن دیگر زبانوں کے لئے ایسا کوئی سرکاری ادارہ کام نہیں کر رہا۔عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی دور حکومت میں علاقائی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے ایک ادارے کے قیام کے لئے سن 2012ء میں قانون سازی کی تھی لیکن دور اقتدار کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ منصوبہ بھی ادھورہ ہی رہ گیا جبکہ صرف ہندکو زبان کی ترقی کے لئے فنڈز ایک غیر سرکاری تنظیم نے فراہم کئے۔
قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے حسین اور تاریخی وادی کانی گرم میں صدیو ں سے برکی(اورمڑی) زبان بولی جارہی ہے۔اس زبان کو بولنے والے برکی قبائل کی آبادی تقریباً 50ہزار نفوس سے زیادہ ہے۔ان قبائلیوں کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ یہ قبائل مسلم جنگجو حکمران محمود غزنوری کے دور حکومت میں 1125ء میں آئے تھے۔یہ قبیلہ محمود غزنوی کا قابل اعتماد فوج کا حصہ تھاجس نے سومنات کی جنگ لڑ کر فتح حاصل کی تھی۔وزیراعظم عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا تعلق بھی اس قبیلہ سے تھا۔اکتوبر 2009ء میں انتہا پسندوں کے خلاف جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات شروع ہونے کی وجہ سے دوسرے قبائلیوں کی طرح کانی گرم کے برکی قبائلیوں نے بھی نقل مکانی کرتے ہوئے ضلع ٹانک،ڈیرہ اسمعیل خان اور ملک کے دیگر شہروں میں پناہ لے لی دیگر شہروں میں قیام کی وجہ سے ان کے بچے سرائیکی،پشتواور دیگر زبانیں بولنے والے بچوں سے اُن ہی کی زبان میں بات چیت کرتے ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے بچے اپنی برکی زبان بھول کر سرائیکی اور دوسری زبانیں سیکھ رہے ہیں۔
برکی زبان کو لاحق خطرات پر گہری نظر رکھنے والے ملک رفیع برکی کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیر ستان میں آپریشن راہ نجات کی وجہ سے مقامی افراد کی نقل مکانی کی وجہ سے یہ زبان معدوم ہونے کے خطر ے سے دوچار ہے۔اُنہوں نے کہاکہ دوسرے شہروں میں رہائش پذیر برکی قبیلے کے بچے اپنی مادری زبان کے بجائے وہ دیگر زبانیں سیکھ رہے ہیں جوکہ انتہائی تشویش ناک بات ہے۔
کہا جاتاہے کہ فرد اور قوم کی شناخت میں زبان جنس اور مذہب شناخت کا اہم ترین جز ہیں۔ لوگ زبان کے ذریعے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ اگر یہ زبانیں مٹ گئیں تو افراد اور قوم شناخت کے بحران سے دو چار ہوتی ہیں جو آگے جاکر ایک قومی المیہ میں بدل سکتا ہے۔
ضلع سوات میں پشتو بڑی زبان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بالائی سوات میں توروالی، گاؤری، گوجری، اشوجو اور کھوار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ضلع دیر بالا میں پشتو کے علاوہ گاؤری اورکلکوٹی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کوہستان کے تینوں اضلاع میں کوہستانی، شینا، بٹیری اور گوارو زبان بولی جاتی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق مردم شماری میں خیبر پختونخوا کی صرف تین زبانوں پشتو، ہندکو اور سرائیکی کو شامل کیا گیاتھا۔ صوبے میں پشتو اور ہندکو بولنے والوں کی تعداد بھی ذیادہ ہے اور اسی طرح ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی ذیادہ ہے۔
صوبائی حکومت نے سکولوں میں پڑھائی کے لئے مادری زبانوں میں کیلاشہ کو شامل نہیں کیا ہے۔ پراونہ جان کا کہنا ہے کہ کیلاش وادی میں 2002 تک ایک امدادی ادارے کے تعاون سے کیلاشہ بچوں کو اپنے ثقافت،زبان پڑھنے اور سیکھنے کے لئے کام کررہا تھا لیکن سکول چلانے والے بندے کو نامعلوم افراد نے گولی مارکر قتل کردیا۔ واقعے کے بعد کیلاشہ بچوں کے لئے واحد تعلیمی ادارہ بند ہو گیا اور اب مسلمان اور کیلاش ایک ساتھ پڑھتے ہیں لیکن کیلاش زبان اور ثقافت کے حوالے سے کورس میں ایک کتاب بھی شامل نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دنیاکی اس نایاب زبان اور ثقافت کو محفوظ بنانے کے لئے حکومتی سطح پر کچھ نہیں ہورہاہے جس کی وجہ سے ان لوگو ں کی ثقافت اور زبان خاتمے کے خطرے سے دوچار ہے۔
سابق حکومت نے اس قانون کے ذریعے پشتو کے ساتھ چار اور زبانوں ہندکو، سرائیکی، کھوار اور کوہستانی کو بھی بتدریج ابتدائی نصاب میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور ان زبانوں کو ان علاقوں کے سکولوں میں پڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا جہاں سکولوں میں ان زبانوں کے بولنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہو۔ اس سلسلے میں کھوار، ہندکو اور سرائیکی کے لئے بچوں کے لئے ابتدائی قاعدے بھی تیار کئے گئے جبکہ کوہستانی زبان کے لئے ایسا کام شینا اور کوہستانی زبانوں کے بیچ تنازعے کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔یہاں تک کہ عوام مطالبہ کررہی تھی کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ضلع کوہستان کی شینا زبان کو بھی اس منصوبے میں شامل کرے۔
خیبر پختونخوا میں بسنے والے ان زبانوں کی قومیتیں ایک عرصے سے حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس ایکٹ پر عملدرامد کو یقینی بنائے جس میں ان ساری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے ایک ادارے کے قیام کے لئے قانون سازی کی ہے مگر ابھی تک حکومت نے اس پر کوئی عمل نہ کیا۔
ان زبانوں کے بولنے والوں میں اپنی زبانوں کو لاحق خطرے کا احساس شدّت سے ہونے لگا ہے اور ان قومیتیوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور سماجی و لسانی کارکن اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
زبیر توروالی کا مزید کہنا ہے کہ یہ زبانیں ابلاغ کے ذرائع ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخ اور ثقافت کی امین بھی ہیں۔ اگر یہ مٹ گئیں تو ان کے ساتھ یہ تاریخ، علمی خزانہ اور دیسی حکمت کے چشمے خشک ہوجائیں گے، مزید براں یہ لوگ اپنی الگ شناخت کھو دیں گے جس سے امن کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
زبیر مزید کہتے ہیں کہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ان زبانوں اور ثقافتوں کو ساتھ لیکر اگے بڑھا جائے کیونکہ دنیا اب جدیدت کے دور میں ہے جہاں یکسانیت اور بڑے بیانئے دم توڑ رہے ہیں۔ لوگ تنوع کو قبول کر رہے ہیں جبکہ پاکستان بدقسمتی سے ابھی تک جدیدت اور نوآبادیت کے قومی بیانئے میں گرا ہوا ہے جہاں لسانی و ثقافتی تنوع کو یک جہتی کے لئے ابھی تک خطرہ سمجھا جاتا ہے، پاکستان کو اس خبط سے نکلنا ہے کیوں کہ دنیا کی دیگر قومیں اس سے نکل چکی ہیں مثلاً پنجابی زبان پاکستان میں نصاب میں شامل نہیں لیکن برطانیہ میں اسے شامل کیا گیا ہے۔
برکی زبان کے حوالے سے اس علاقے سے تعلق رکھنے والے معروف شعرا ء اور گلوکاروں نے اس زبان کو اپنی شاعری میں بہت عزت بخشی ہے جن میں شاعر روئیدار برکی، روزی خان برکی اور معروف گلوکار شوکت شوگیر وزیراورڈاکٹر عطا کے نام قابل ذکر ہیں۔
مقامی صحافی ملک عرفان الدین برکی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیاگیا تو انھوں نے کہا کہ اکتوبر 2009ء میں جب سے برکی قبائلیوں نے دوسرے قبائلیوں کی طرح نقل مکانی کی اور دوسروں علاقوں میں آباد ہوئے جس کی وجہ سے برکی زبا ن کو خطرات لاحق ہوگئے تھے اور زبان بولنے میں کمی آگئی ہے جب حکومتی عہدیداروں کیساتھ اس حوالے سے رابطہ کیاگیاتو کوئی تسلی بخش موقف سامنے نہیں آسکا۔
زبان کا کردار تعلیم میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم بہت موثر اور فطری ہوتی ہے اورساری دنیا کی تعلیمی تحقیق اس سے متفق ہے۔ زبان کی اس تعلیمی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ان زبانوں کو نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے اس سے یہ زبانیں اور ثقافتیں مٹ جانے سے بچیں گی اور ساتھ تعلیم معیاری اور فطری بن جائے گی۔