باجوڑ تحصیل سلارزئی میں مقامی جرگے نے موسیقی پر پابندی عائد کر دی
مصباح الدین اتمانی
باجوڑ تحصیل سلارزئی کے گاوں عالیمانو کلی میں موسیقی پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گزشتہ روز نماز جمعہ کے بعد ہونے والے جرگے میں تقریبا 130 افراد شریک تھے جنہوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اگر گاوں میں کسی نے موسیقی کی محفل سجائی یا باہر سے گانے بجانے والے ہنر مند لائے تو ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا، جرگہ میں فیصلہ کیا گیا کہ علاقے کے لوگ اس کی غمی خوشی میں شرکت نہیں کریں گے جبکہ علماء ان کی نکاح نہیں پڑھائیں گے۔
جرگے میں موجود ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ علاقے کا دستور ہے کہ مہمانوں کو اچھا کھانا کھلایا جائے، موسیقی کی محفلیں بے فائدے ہیں اور لوگ بھی موسیقی کو برا مانتے ہے ، اس وجہ سے علاقے کے تمام مشران اور نوجوانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر کسی نے خوشی یا شادی کے موقع پر گلوکاروں کو مدعو کیا تو ہم ان کا سوشل بائیکاٹ کریں گے، سب کا مشترکہ فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے پر علاقہ کے لوگ خوش ہیں، جو پیسے موسیقی کی محفل پر لگاتے ہیں وہ مسجد پر لگائیں، ہم علاقے میں ان تمام کاموں کی روک تھام کریں گے جس میں ثواب نہیں،صرف شریعت کی پیروی کریں گے،
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس میں کوئی باقاعدہ معاہدہ ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ اقوام سلارزئی کا یہ اصول اور روایت رہا ہے کہ جس بات پر لوگ اتفاق کریں اور مشران دعائے خیر کریں تو پورا علاقہ عمل کرنے کا پابند ہوگا۔
اس کے مطابق جرگہ مسجد کے پیش امام مولانا ہدایت اللہ کی زیر نگرانی ہوا جبکہ اس میں علاقے کے سرکردہ رہنما حاجی عالم خان، حاجی بخت سردار اور دیگر مشران بھی اس موقع پر موجود تھے۔
اس حوالے سے جب ہم نے مسجد کے پیش امام مولانا ہدایت سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس فیصلے کے حوالے سے کہا کہ گاوں میں فوتگی ہوئی تھی جب کہ کچھ لوگ موسیقار لیکر آئے تھے، جس پر علاقے کے لوگوں کی دل ازاری ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ ہم نے پابندی لگانے کا نہیں کہا ہے البتہ ایسے لوگوں سے گزارش کریں گے کہ موسقی کی محفلیں نہ سجائیں، مولانا ہدایت اللہ نے کہا کہ باہر سے جو گلوکار آتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کیلئے ٹھیک نہیں، جرگے میں اس پر بات ہوئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کہا جا رہا ہے کہ جرگہ آپ کی سربراہی میں ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں اس علاقے کے مسجد کا امام ہوں یہاں جو ہوتا ہے تو لوگ میری زیرنگرانی کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر کی انہوں نے تردید کی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ جرگہ مولانا ہدایت اللہ نے بلایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مشران نے فیصلہ کیا ہے اور جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ علاقے کی رسم و رواج کو نہیں مانتے تو ان کا اپنا کام ہوگا اور ہمارا اپنا، ہم بھی انکی غمی اور خوشی میں شرکت نہیں کریں گے۔
اس گاوں کا تاریخی پس منظر!
دو سو گھرانوں پر مشتمل اس تاریخی گاوں کا پرانا نام دربار قلعہ تھا، مولانا خانزیب کے مطابق یہاں بڑے بڑے پتھر تھے جہاں موسیقار آتے تھے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے، پھر اس علاقے میں ان موسیقاروں کو قتل کیا گیا جس کے بعد یہ ڈمانو کلی کے نام سے مشہور ہوا، حال ہی میں اس کا نام تبدیل کر کے عالیمانوں کلے رکھا گیا۔
مولانا خانزیب نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تمام ناموں کا ایک تاریخی پس منظر ہے، لوگ اپنے علاقوں کے نام نہ بدلے، اس کی پش پر ایک تاریخ ہوتی ہے، ڈمانو کلی کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں رہنے والے تمام افراد ڈمان یعنی موسیقار ہے، مختلف طبقے کے لوگ رہتے ہیں، تو ان کا نام بدلنا بہت بری بات ہے۔ ہم اگر نام بدلیں گے اور تاریخ نہیں جانیں گے تو تاریخ مٹتی جائے گی۔
موسیقی پر پابندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
مولانا خانزیب نے کہا کہ افغانستان میں جو تبدیلی ائی ہے اس کے اثرات اب یہاں ظاہر ہو رہے ہیں، وہاں پابندی لگائی گئی اب اثرات یہاں ائیں گے، اور اس میں مسلسل اضافہ ہوگا یہ دیگر علاقوں تک پھیلے گا۔
کیا موسیقی حرام ہے؟
مولانا خانزیب نے کہا کہ ایک پشتونوں کی اپنی ثقافت ہے اور ایک اسلامی احکامات ہے، بہت ساری ایسے باتیں ہے، جس میں اسلام اور پشتو ایک ساتھ ہے یعنی پردہ، حیا،حلال و حرام،مہمان نوازی، پڑوسیوں کے حقوق، جرگہ ننواتے وغیرہ۔
موسیقی کفر اور اسلام کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ یہ ایمان اور بے ایمانی کا مسئلہ ہے، اسلام میں اس موسیقی کے حوالے سے دو روایت ہے ایک یہ کہ موسیقی مکمل حرام ہے اور اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں،
جبکہ دوسری روایت اس حوالے سے امام فارابی اور دیگر فقہاء کا ہے جو مشروط موسیقی کی قائل ہے یعنی موسیقی میں شاعری غلط نہیں ہوگی، اس میں جنسی عمل، گناہ اور بے حیائی کی ترغیب نہیں ہوگی، تصوف میں قوالی کا جواز موجود ہے،موسیقی کے حوالے سے اسلام کی پہلی روایت زیادہ غالب ہے۔
موسیقی کا زوال
مولانا خانزیب کہتے ہیں کہ اسلام کے غلوب کے ساتھ موسیقی کا زوال شروع ہوا انہوں نے لیاقت تابن کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب پشتونوں کے علاقوں میں اسلام آیا تو دربار کی موسیقی ختم ہوگئی، اس طرح محمود غزنوی کے زمانے میں بھی یہ موسیقی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ، البتہ جو ہماری روایتی موسیقی ہے یہ کبھی بند نہیں ہوئی اس پر صرف ریاستی حد تک پابندی لگا دی جاتی، لیکن موجودہ حالات میں اس پر بھی پابندی لگائی گئی، انہوں نے کہا کہ پشتونوں کے کلچر میں موسیقی موجود ہے،دو ہزار سالہ پرانے اثارقدیمہ میں ایسے نشانات ملے ہیں جس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ رباب پشتونوں کا آلہ ہے۔
موسیقی کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
مولانا خانزیب نے بتایا کہ پپشتون موسیقی پسند کرتے ہیں لیکن موسیقار کو نہیں، گاڑی میں موسیقی سنتے ہیں، لیکن جب اس حوالے سے اپ پوچھیں گے تو یہ حرام قرار دیں گے، اور اس کی مخالفت کریں گے، ان کے خیالات میں تضاد موجود ہے البتہ پشتو ثقافت میں طوائف کو نچانا نہیں ہے، یہ غلط ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہے، ہیجروں کو نچانا نہیں ہے، کم عمر لڑکوں کو نچانا غلط ہے، ہجروں میں مجالس کا اہتمام ہزاروں سال پراناہے۔
موسیقی پر پابندی کے کیا اثرات ہونگے؟
مولانا خانزیب کا کہنا ہے کہ اس قسم کے فیصلوں سے تصادم پیدا ہوگا جو علماء ہے وہ وعظ تک بات کرے، اسلام کے حوالے سے پوری وضاحت کرے، محمد ﷺ ایک شادی میں تشریف لائے وہاں خاموشی تھی،لڑکیاں تابلا بجا رہی تھی جب نبی ﷺ کو دیکھا تو بھاگ گئی۔ نبی بیٹھ گئے تو پوچھا وہ بچیاں کدھر گئے قریش تو موسیقی پسند کرتے ہیں، ان کو بلاو کہ وہ تابلا بجائے، تابلا بجائے۔
البتہ یہ باتیں کہ موسیقی والوں کے نکاح یا جنازہ نہیں پڑھائیں گے یہ غلط ہے اسلام کے حوالے سے بھی اور ہماری روایات کی نظر سے بھی اس سے سے معاشرے میں بگڑاو پیدا ہوگا۔