ورلڈ ریڈیو ڈے: جنگ بندی کے دوران سوات اور قبائلی اضلاع میں ریڈیو کا کیا کردار رہا؟
وسیم سجاد
خیبر پختونخوا سمیت دنیا بھر میں ہر سال 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں جنگ بندی کے دوران ریڈیو کو طالبان کس طرح استعمال کرتے تھے؟
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں 2007 کے بعد طالبان اور فوج کے درمیان مبینہ طور پر جھڑپیں ہوئیں جس کی وجہ سے لاء اینڈ آرڈر کی حالت خراب ہوئی اور ضلع سوات اور قبائلی اضلاع میں فوجی آپریشنز شروع ہوئے۔ اس جنگ میں ریڈیو نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
یہ جنگ صرف اسلحہ یعنی تیغ و تفنگ کی نہیں تھی بلکہ پشاور یونیورسٹی کے ریڈیو انچارج نعمان خان کے مطابق انفارمیشن (معلومات) کی جنگ بھی بنی جب طالبان نے دو جگہوں (سوات اور خیبر) میں ریڈیو کے ذریعے اپنے پیغامات کو لوگوں تک پہنچانا شروع کیا۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات، مینگورہ سے تعلق رکھنے والے فضل خالق نے بتایا کہ انہوں نے ریڈیو کے ذریعے کئی مرتبہ طالبان کے لیڈر ملا فضل اللہ تقریر کرتے سنا، فضل اللہ کے علاوہ دوسرے طالبان کمانڈر شاہ دوران اور دیگر بھی ریڈیو پر بار بار آتے تھے۔
فضل خالق نے بنایا کہ طالبان ریڈیو کے ذریعے تقاریر کے علاوہ دیگر احکامات بھی جاری کرتے تھے اور بچوں کو بھی تعلیم دیتے تھے کہ دنیاوی تعلیم چھوڑ دیں اور ان کو ڈراتے دھمکانے کی کوشش بھی تھے۔
فضل خالق کے مطابق اس ریڈیو سے ان لڑکیوں کے لئے خوشخبریاں اور دعائیں بھی معمول تھیں جو سکول چھوڑ دیتی تھیں، پردہ کرنے کے بارے میں بھی بے تحاشہ اعلانات ہوتے تھے جس میں عورتوں کو ڈرایا جاتا تھا کہ اگر وہ پردہ کئے بغیر گھر سے باہر نکلیں تو ان کو سخت سزائیں دی جائنں گی۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے اس ریڈیو سے صرف قرآن اور حدیث کی باتیں سننے کو ملتی تھیں لیکن بعد میں چندہ مانگنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ چونکہ گھروں میں یہ زیادہ سننا جاتا تھا تو خواتین کو زیادہ تر یہ ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ طالبان کو چندہ دیں جس کے بدلے میں ان کو جنت ملے گی نتیجتاً خواتین نے اپنے سونے اور زیورات بھی ان کو چندہ کے طور پر دیئے۔
طالبان نے ریڈیو کا انتخاب کیوں کیا؟
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر محمد نعمان خان نے بتایا کہ طالبان یہ جانتے تھے کہ ان کو میڈیم کی ضرورت ہے تاکہ ان کا پیغام لوگوں تک آسانی سے پہنچ سکے جبکہ یہ جنگ ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ لے کر لڑنے کے ساتھ ساتھ انفارمیشن کی بھی جنگ تھی اور طالبان نے ریاست کے خلاف اپنا پروپیگنڈا بہت موثر طریقہ سے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پروپیگنڈا کرنے کے علاوہ طالبان اپنا پیغام ریاستی اداروں تک بھی پہنچانا چاہتے تھے جس کا واحد ذریعہ اس وقت یہی ایف ایم ریڈیو تھا۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان کے ریڈیو کو بطور میڈیم منتخب کرنے کے عوامل میں یہ بھی شامل تھا کہ اس کا سننا بھی آسان ہوتا ہے کیوں کہ یہ لوگوں کو ان کی زبان میں پیغام پہنچاتا ہے اور لوگ اپنے کاموں میں مصروف رہ کر بھی ریڈیو سن سکتے ہیں۔
نعمان نے بتایا کہ ریڈیو ٹرانسمیٹر کو بنانا آسان ہوتا ہے، اکثر کمیونیکیشن اور انجینئرنگ کے طالبعلم اس طرح کے چھوٹے ٹرانسمیٹر اپنے پراجیکٹ کے طور پر بھی بناتے ہیں لیکن اس ٹرانسمیٹر کا استعمال غیرقانونی ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سوات اور خیبر میں جو ریڈیو طالبان استعمال میں لاتے تھے ان کی فریکونسی پانچ سے 10 وولٹ کے مابین تھی جسے با آسانی بنایا جا سکتا ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر کے مطابق 10 واٹ تک کا ٹرانسمٹر بہت زیادہ علاقے کو تو کور نہیں کر سکتا البتہ طالبان کے پاس موبائل ٹرانسمٹرز ہوا کرتے تھے جسے گاڑی میں آسانی کے ساتھ لے جایا جا سکتا تھا اور جب طالبان چاہتے تھے کہ ان کے پیغامات زیادہ علاقوں میں پہنچیں تو وہ اسے اپنے ساتھ گاڑیوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔
طالبان کی ریڈیو نشریات کو روکنے میں حکومت کو کیا چیلنجز درپیش تھے؟
اس حوالے سے محمد نعمان خان نے بتایا کہ حکومت کی انتھک کوشش تھی کہ طالبان کے پروپیگنڈا کو روکا جا سکے لیکن اس کو شدید مشکلات درپیش تھیں کہ اس قسم کے ٹرانسمیٹرز کو جیم کریں، ”ایک تو حالات بہت خراب تھے اور اداروں کو بہت سارے خطرات لاحق تھے اور دوسری طرف حکومت کو ان علاقوں تک رسائی ممکن نہیں تھی کہ وہ ان سگنلز کو بلاک کرے جس کی وجہ سے یہ کام مشکل تھا، اس کے علاوہ پیمرا کا دائرہ کار اس وقت دوردراز علاقوں اور قبائلی اضلاع تک نہیں پھیلا تھا جس نے حکومت کے کام کو اور بھی مشکل بنا دیا تھا۔
ریڈیو پر طالبان کے موضوعات:
ڈاکٹر انور شاہ جو کہ گورنمنٹ خان شہید کالج کبل، سوات کے شعبہ مطالعہ پاکستان میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اپنے ریسرچ پیر میں طالبان کے ریڈیو کے موضوعات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان میں چندہ مانگنے کی اپیل، جہاد میں جانے کی ترغیب، آرمی کے خلاف بغاوت، نوجوانوں میں جہاد و جنگ اور انتہاپسندی کو فروغ دیںا، خواتین کو گھر میں بیٹھنے کا حکم، خواتین ڈاکٹر اور نرسوں کو دھمکانا، سرکاری افسران کو حکم دینا کہ وہ اپنی نوکریاں چھوڑیں، قرآن کی متعصبانہ تشریح، لوگوں کو حکم دینا کہ موسیقی نہ سنیں اور اسلام پر مبنی حقیقی نظام عدل کا قیام شامل تھا۔