مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح: خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگیں
عائشہ یوسفزئی
مردان سے تعلق رکھنے والی مناہل کو مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے پریشان کر رکھا ہے، بقول ان کے مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے ان کی زندگی کی رونقیں اجیرن جبکہ اخراجات نے ان کو نفسیاتی طور پر اضطراب میں ڈال دیا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں مناہل نے بتایا کہ مہنگائی نے میرے پورے گھرانے کی زندگی پر بہت برا اثر ڈالا ہے کیونکہ میرا شوہر زندہ نہیں ہے، ”سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح سے کم پیسوں میں گھر کے اخراجات پورے کروں، پہلے اشیائے خوردونوش زیادہ مقدار میں موجود ہوتی تھیں لیکن اب مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے روزمرہ کی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے، بس گزارہ کر کے وقت گزار رہے ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ پہلے مہینہ ختم ہونے کے بعد بھی تنخواہ میں تھوڑی بہت، دس سے پندرہ ہزار تک، بچت ہو جاتی تھی لیکن آج کل تو تنخواہ کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کیسے ختم ہوئی اور پھر پورا مہینہ حیرانی اور پریشانی کی حالت میں گزرتا ہے کہ گیس اور بجلی کے بلوں، بچوں کی تعلیم اور ڈاکٹر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر خاندان میں اچانک کوئی غم یا خوشی آ جائے اور ان کے ساتھ مدد نہ کی جائے تو پھر گلے شکوے کرتے ہیں اور پورے خاندان میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن اگر کسی سے مالی امداد کروں تو پھر گھر میں فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے، ”بچے اکثر میرے ساتھ بازار جاتے ہیں اور من پسند چیزیں خریدنے کی فرمائش کرتے ہیں لیکن پیسے کم اور چیزیں مہنگی ہونے کی وجہ سے میں انہیں بہلا پھسلا کر گھر لے آتی ہوں، ان ساری وجوہات کی وجہ سے میرے بچوں اور بذات خود مجھ پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔”
اس سلسلے میں مردان میں پی کے باون سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی ظاہر شاہ طورو نے کہا کہ پاکستان میں بیٹھے لوگ مہنگائی کا الزام حکومت پر لگاتے ہیں لیکن مہنگائی پچھلی حکومتوں کے دوسرے ممالک اور عالمی اداروں سے قرضہ لینے کی وجہ سے آئی ہے چونکہ ہمیں قرضے سود سمیت واپس کرنا پڑتے ہیں تو دوسری طرف کورونا وباء کی وجہ سے ساری دنیا کے رابطے ایک دوسرے سے منقطع ہو گئے تھے، فلائٹس اور سپلائی لائن کی بندش بھی مہنگائی کی وجوہات میں شامل ہے۔
ظاہر شاہ طورو نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کو خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ مہنگائی عوام کو ستا رہی ہے اور اگر ہم نے مہنگائی کو قابو نہ کیا تو یہ ہماری سیاست کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا اور خان صاحب کا ماننا ہے کہ ہمیں اس کے لئے ڈیویلپمنٹ سیکٹر پر توجہ دینا ہو گی ورنہ آئندہ الیکشن میں عوام کا اعتماد ووٹ نہ ملنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
دوسری طرف ماہر معاشیات و اقتصادیات کے ماہر سید رحمان نے مہنگائی کے حوالے اپنی گفتگو میں کہا کہ جب حکومت سنٹرل بینک سے قرضہ لیتی ہے تو اس سے پورے ملک میں مہنگائی کی لہر آتی ہے، عام حالات میں مہنگائی کی دو قسمیں ہیں، ایک حقیقی اور دوسری مصنوعی، ”حقیقی مہنگائی سے مراد عالمی تیل منڈی میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے جبکہ ملک میں ذخیرہ اندوزی کر کے، رشوت لے کر یا بااثر و بارسوخ لوگ اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے مصنوعی مہنگائی کرتے ہیں، یہ بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، اگر مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کے لئے اندرونی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہو گا اور باہر کے ممالک سے درآمدات پر انحصار کم کرنا پڑے گا تو اس سے مہنگائی کم ہو جائے گی۔”
ایک سوال کے جواب میں سید رحمان نے کہا کہ مہنگائی میں بزنس کمیونٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر وہ ایک چیز زیادہ پیسوں میں لیتے ہیں تو پھر زیادہ پیسوں میں فروخت بھی کرتے ہیں جس سے ان کی آمدنی اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ مہنگائی کا برا اثر غریب طبقے پر ہی پڑتا ہے۔