لائف سٹائل

غربت و مالی پریشانی: ترکی میں جاں بحق باڑہ کے دو دوستوں کی کہانی

شاہ نواز آفریدی

ترکی میں 4 سال سے زائد عرصہ اکٹھے رہنے کے بعد دو نوجوان دوست سردی کی شدت کم کرنے کے لئے رات کو کمرے میں کوئلہ جلانے کے بعد گیس بھر جانے سے ناگہانی موت مر گئے۔ قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والا 25 سالہ رب نواز ولد رنڑا گل اور 19 سالہ عطاءاللہ ولد ولایت 2017 کے آخر میں غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لئے گھر سے نکلے تھے اور اس وقت سے ترکی میں مقیم تھے۔ ان کی اموات گزشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شپ واقع ہوئیں اور پیر کی صبح ہی باڑہ میں ان کے خاندان والوں کو ان کے دیگر دوستوں نے اطلاع دی۔

قبیلہ ملک دین خیل کے رب نواز اور قبیلہ ذخہ خیل سے تعلق رکھنے والے عطاء اللہ دونوں اپنے والدین کے بڑے بیٹے تھے اور کمزور معاشی حالات کی وجہ سے دونوں غیرقانونی طریقے سے ترکی گئے تھے اور فی الحال آگے یورپ جانے کا طریقہ کار ان کے پاس نہیں تھا۔ عطاء اللہ کے چاچا قدر گل کے مطابق وہ آئندہ مارچ میں واپس پاکستان آ رہا تھا کیونکہ وہ وہاں سبزی منڈی وغیرہ میں سخت محنت اور مزدوری کرتا تھا اور اجرت بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔

مرحوم عطاءاللہ کے پڑوسی قبیلہ ملک دین خیل سے تعلق رکھنے والے نو منتخب کونسلر و سماجی کارکن ڈاکٹر عبدالوہاب نے غیرقانونی طور پر یورپی ممالک جانے افراد کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق ملک دین سے تعلق رکھنے والے 150 سے 200 تک نوجوان اس وقت غیرقانونی طور پر ترکی، ایران اور دیگر یورپی ممالک میں مقیم ہیں۔

25 سالہ رب نواز کے والد اور دو یتیم بیٹیاں

اس بارے خیبر یونین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل زاہد اللہ آفریدی نے بتایا کہ تحصیل باڑہ سے تقریباً 1500 سے 2000 تک نوجوان غیرقانونی طور پر یورپی ممالک کے لئے گھروں سے نکل چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہر وقت جاری رہتا ہے جس میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر نوجوان گروپس میں شامل ہو کر ان غیرقانونی راستوں پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

باڑہ سے تعلق رکھنے والے پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری ہولڈر جمیل (فرضی نام) نے بھی غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کی لیکن اس کو ایران میں پکڑ کر واپس پاکستان بھیجا گیا تاہم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ واپسی پر مختلف قسم کی مشکلات سے کسی حد تک محفوظ رہا۔ جمیل کے مطابق جب اس کو ایران میں ایرانی فورسز نے پکڑا تو جو سفر انہوں کئی دنوں میں اور کئی گھنٹوں تک مسلسل مختلف گاڑیوں میں طے کیا تھا وہ محض تین گھنٹوں سے بھی کم وقت میں سڑک پر طے کر کے اس کو پاکستان کی حکومت کے حوالے کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

حوثیوں کے حملے میں جاں بحق مامور خان کو غربت ابوظہبی لے گئی تھی

ترکی میں جاں بحق رب نواز نے اپنے پیچھے 4 اور 5 سالہ دو بچیاں چھوڑیں جبکہ اس کے دو چھوٹے بھائی ہیں جو بالترتیب 9ویں اور آٹھویں میں پڑھتے ہیں اور پورے سکول میں ٹاپ پوزیشن لیتے ہیں، رب نواز ہی کی مدد سے وہ پڑھتے تھے جبکہ ان کے والد کا گلی محلے میں ایک چھوٹی دکان ہے۔

رب نواز (فائل فوٹو)

دوسری جانب عطاءاللہ کے والد بھی پرائیویٹ طور پر چوکیداری وغیرہ کرتے ہیں اور ان کے 5 بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جو تمام عطاء اللہ سے چھوٹے پیں اور عطاء اللہ جاتے وقت ایک چھوٹا بیٹا چھوڑ کر گیا تھا جو اب 4 سال کا ہے۔

دونوں کے جسد خاکی پاکستان لانے میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مرزا محمد آفریدی نے ان کی مالی اور جانی مدد کی اور تقریباً تین لاکھ تک اخراجات انہوں نے ذاتی طور پر برداشت کئے۔

اس حوالے سے ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے بتایا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ بات سوشل میڈیا پر پھیلے اور لوگوں کو ان کی مدد معلوم ہو کیونکہ وہ اللہ کی رضا کے لئے لوگوں کی مدد کیا کرتے ہیں، اس سے پہلے بھی ضلع خیبر کا ایک لڑکا کسی یورپی ملک میں زخمی ہوا تھا جس کی انہوں نے مدد کی تھی اور ایک نوجوان اٹلی میں فوت ہوا تھا جس کا جسد خاکی ڈپٹی چیئرمین سینٹ مرزا محمد آفریدی نے پاکستان لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ رب نواز کے ماموں کے مطابق ان دونوں کے جسد خاکی ترکی سے لانے میں سابقہ سینٹر تاج محمد آفریدی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

دونوں کے جسد خاکی ترکی سے پاکستان لانے میں تقریباً 6 روز لگے اور ہفتے کی صبح سویرے اسلام آباد میں اتارے گئے اور اسی روز مختلف مقامات پر دونوں کے جنازے پڑھائے گئے۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ترکی جاتے ہوئے راستے میں دوست بن گئے تھے اور تاحال ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button