وزیرستان کی پہلی خاتون صحافی کا پہلی خاتون میئر بننے کا خواب
خالدہ نیاز
قبائلی علاقوں کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون رضیہ محسود نے آنے والے بلدیاتی انتخابات میں میئر کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ خیال رہے کہ رضیہ محسود کو جنوبی وزیرستان سے پہلی خاتون صحافی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران رضیہ محسود نے کہا کہ چند سال قبل جب انہوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا تب بھی ان کا مقصد علاقے اور عوام کی خدمت تھی اور اب سیاست کی جانب بھی وہ اس لیے آئی ہیں کہ اپنے علاقے کی عوام اور خاص طور پر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس کا حل بھی نکال سکیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین سیاست میں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے خواتین کے مسائل جوں کے توں پڑے ہیں۔
رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ اگر سیاست میں خواتین زیادہ ہوں گی تو وہ خواتین کے مسائل کو زیادہ اچھے طریقے سے سامنے لائیں گی اور پھر ان مسائل کے حل کے لیے بھی کوششیں کریں گی جس سے ان کے مسائل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ سیاست میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو اپنے ذاتی مفادات پہ علاقے کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو علاقے کے مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ علاقے کے مفاد کا سوچتے ہیں وہ بہت کم ہیں ان کو آگے آ کر سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔
رضیہ محسود نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کی خواتین میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن وہاں کی خواتین نہ تو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہیں اور نہ ہی سیاست میں آتی ہیں تو ان کے آنے سے خواتین کو حوصلہ ملے گا کہ وہ کس طرح سیاست میں آ کر دوسری خواتین کی آواز بن سکتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ وزیرستان کے دور دراز کے علاقوں کا بھی وزٹ کر چکی ہیں اور ان کو بخوبی پتہ ہے کہ قبائلی خواتین کے مسائل کیا ہیں، ‘میں وزیرستان کے ایسے ایسے علاقوں میں گئی ہوں جہاں کوئی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور میں نے نہ صرف میڈیا کے ذریعے ان خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا ہے بلکہ بعض مسائل کو میں نے ذاتی طور پر حل بھی کیا ہے اور ان کو میڈیا پہ سامنے نہیں لائی میں’ رضیہ محسود نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ صحافت میں رہ کر بھی وہ عوام کے مسائل کو اجاگر کر رہی تھیں لیکن ایک صحافی عوام کے مسائل کو صرف اجاگر ہی کر سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں جبکہ سیاست میں آنے کے بعد وہ اس قابل ہو جائیں گی کہ نہ صرف عوام کے مسائل کو سنیں گی، سامنے لائیں گی بلکہ ان کے حل کے لیے بھی کام کر سکیں گی، منتخب ہونے کے بعد وہ اس قابل ہو جائیں گی کہ نہ صرف موثر آواز اٹھائیں گی بلکہ اس کے ساتھ ان کے پاس اتنے اختیارات ہوں گے کہ وہ لوگوں کے مسائل بھی حل کر پائیں گی اور ایوانوں میں عوامی مسائل لانے کے قابل ہو جائیں گی۔
‘میں بچپن سے دیکھتی آ رہی ہوں کہ جب بھی کوئی انتخابات میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ بہت بلندو بالا دعوے کرتا ہے کہ پاس ہونے کے بعد یہ کروں گا یا کروں گی لیکن جب وہ پاس ہوتا ہے تو پھر کسی کو نظر بھی نہیں آتا اس لیے میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ کروں گی یا وہ کروں گی کیونکہ ایسا نہ ہو کہ میں منتخب ہو جاؤں اور پھر ان دعوؤں کو پورا نہ کر سکوں تو اچھا نہیں لگے گا شاید میرے پاس اتنے اختیارات نہ ہوں، میں نے صحافت میں رہ کر بھی کام کیا ہے اور سیاست میں بھی اپنا کام کروں گی۔’ رضیہ محسود نے کہا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کو نہ صرف اپنے علاقے کی جانب سے اچھا رسپانس ملا ہے بلکہ کئی لوگوں نے ان کے اس اقدام کو سراہا بھی ہے جس سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، اب اگر وہ ہارتی بھی ہیں تو ان کو پرواہ نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے سے جیت گئی ہیں، لوگوں کی محبت نے ان کو کافی ہمت دی ہے۔
رضیہ محسود کے مطابق وہ علاقے کی عوام کو اتنا یقین ضرور دلاتی ہیں کہ اگر وہ جیت جاتی ہیں تو جو فنڈز آئیں گے وہ ان پر ہی خرچ ہوں گے۔