لائف سٹائل

گھریلو خواتین کو کاروبار کے مواقع دینے والی صدف شہزادی کون ہیں؟

سلمان یوسفزے

”اک شام چھوٹا سا بچہ ہاتھوں میں لکڑی سے بنے کھلونے پکڑے ہمارے گھر داخل ہوا اور کہنے لگا کہ باجی یہ مجھ سے لے لو، میرے والد یہ کھلونے گھر میں بناتے ہیں اور میں انہیں گھر گھر لے جا کر بیچتا ہوں۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ ہم ان جیسے لوگوں کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں پر ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو نہ صرف ہم بیچ سکیں بلکہ ان ہنرمندوں کو حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے کلچر کو بہتر انداز میں پیش کر سکیں۔

یہ کہنا تھا شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی صدف شہزادی کا، جنہوں نے پشاور صدر میں سمانا آرٹ گیلری کے نام سے ایک دکان کھول رکھی ہے جس میں وہ گھریلو خواتین کے ہاتھ کی بنی اشیاء فروخت کرتی ہیں۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے پاکستان سٹڈیز میں ایم فل کرنے والی صدف نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں لاکھوں خواتین اپنے گھروں میں کسی نہ کسی ہنر سے وابستہ ہیں لیکن سماجی رویوں اور معاشرتی اقدار کی وجہ سے وہ ایک مرد کی طرح بازار میں اپنے فن کو نہیں بیچ سکتیں اس لئے ہم انہیں یہ مواقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں کو ہماری دکان کے ذریعے بیچ سکیں اور خود کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کی کوشش کریں۔

صدف کے بقول سمانا آرٹ گیلری میں پاراچنار، شمالی وزیرستان، سوات اور صوبے کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تیارکردہ چیزیں موجود ہیں جنہیں نہ صرف لوگوں پسند کرتے ہیں بلکہ وہ انہیں خریدنے میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔

صدف کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو مزید توسیع دینے کی خواہش رکھتی ہیں اور ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا چاہتی ہیں جہاں پر نہ صرف پشتون بلکہ ملک بھر کی دیگر ثقافتی اشیا موجود ہوں تاکہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ ہم بھی ایک بھرپور ثقافت رکھنے والے لوگ ہیں اور ہماری بھی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔

ہوم بیسڈ ورکر کا ملک کی معیشت میں کردار

پشاور یونیورسٹی میں شعبہ اکنامکس کے پروفیسر اور ماہر معاشیات ڈاکٹر ذلاکت خان نے لیبر فورم سرورے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں 4.8 ملین لوگ گھروں میں کام کر کے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ یونائیٹیڈ نیشن ویمن کی 2016 رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوم بیسڈ ورکرز سالانہ 400 بلین روپے کما رہے ہیں جن میں سے 65 فیصد خواتین ورکرز ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button