بلاگزلائف سٹائل

باجوڑ میں اسلحہ کی دکانیں فاٹا انضمام کے بعد بھی فعال، لائسنس کسی کے پاس بھی نہیں

زاہد جان

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضم شدہ اضلاع میں، جہاں پہلے ایف سی اۤر کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ سارا نظام چلاتا تھا اور سب اختیارات پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس ہوتے تھے، اسلحہ کا کاروبار شروع کرنا بھی اۤسان تھا کیونکہ پولیٹیکل ایجنٹ ایک سادہ کاغذ پر این او سی جاری کرتا تھا جس کے بعد دکاندار اسلحہ کا کاروبار شروع کرتا تھا لیکن مئی 2018 کے بعد فاٹا انضمام کے بعد یہ کاروبار کس قانون کے تحت ہو رہا ہے خود انتظامیہ اور پولیس حکام کو بھی پتہ نہیں ہے۔

موجودہ وقت میں ضلع باجوڑ میں اسلحہ کی 40 کے قریب دکانیں فعال ہیں لیکن ان دکانداروں میں سے کسی کے پاس بھی لائسنس موجود نہیں ہیں۔ خار بازار میں صدیوں سے اسلحہ کاروبار سے وابستہ حاجی نصیب گل کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اۤج بھی ایف سی اۤر دور قانون کے سادہ سٹامپ پیپر پر اجازت نامے موجود ہیں۔

ضلع باجوڑ میں اسلحہ کا کاروبار کئی صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ خار بازار میں شینگس مارکیٹ اس حوالے سے بہت تاریخی حیثیت رکھتی ہے جہاں پر آج کل بھی دو درجن تک اسلحہ کی دکانیں ہیں۔ اس طرح پشت بازار، ناواگئی بازار اور عنایت کلی بازار بھی اسلحہ کاروبار کے لیے مشہور ہیں جہاں پر درجنوں دکانوں میں مختلف قسم کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے۔ ان اسلحوں میں کلاشنکوف، پستول، بندوق، کارتوس وغیرہ اور دیگر امپورٹڈ اسلحے شامل ہیں۔

خار بازار میں اسلحہ کاروبار سے وابستہ ایک تاجر نے دعوی کیا ہے کہ ضلع باجوڑ میں اسلحہ کاروبار آج بھی ایف سی آر دور کے پولیٹیکل ایجنٹ کے سادہ سٹامپ پیپر پر موجود اجازت نامے پر چلتا ہے۔ ان کے بقول فاٹا انضمام کے بعد بھی اسلحہ کاروبار سے وابستہ دکانداروں کے پاس وہ پرانا اجازت نامہ ہے۔ اس دور میں اس معاہدے کی کوئی تجدید نہیں کرائی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلحہ کاروبار بہت خطرناک اور حساس معاملہ ہے خاص طور پر سابقہ فاٹا میں، جہاں پر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور انتہاپسندی کا ایک خوفناک دور رہا ہے اور یہ خطرات آج بھی لاحق ہیں۔ مئی 2018 میں فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد 60 سے زیادہ 302 کے کیسز درج ہوئے ہیں۔

جب سے فاٹا کا انضمام ہوا ہے، یہاں کا قانون بدل گیا ہے، یہاں کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہو گیا ہے، پرانے معاہدوں اور اجازت ناموں کی، اگر انضمام کے بعد انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے تجدید نہیں ہوئی تو انضمام کے بعد ان چیزوں کی قانونی حیثیت بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

اس تمام بحث اور پس منظر کو لے کر فاٹا انضمام کے بعد بھی اور آج کل کے حالات و واقعات کے حساب سے بھی یہ سوال بہت درست اور قانونی ہے کہ یہ خطرناک کاروبار پرانے دور (پولیٹیکل ایجنٹ دور) کے این او سی پر کیوں دھڑا دھڑ چل رہا ہے؟

انضمام کے بعد ان معاہدوں کی کیا قانونی حیثیت رہ گئی ہے؟ انضمام کے بعد یہ کاروبار کیوں ریگولرائز اور قانون کے دائرے میں نہیں لایا جا رہا ہے؟

اس رپورٹ کے لئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ڈپٹی کمشنر باجوڑ، ہوم ڈیپارٹمنٹ اور ڈی پی او سے معلومات حاصل کرنے کیلئے درخواست کی گئی جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا البتہ ڈپٹی کمشنر باجوڑ افتخار عالم اس سے لاعلم نکلے کہ ضلع باجوڑ میں بھی اسلحہ کی دکانیں موجود ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بھی علم نہیں کہ یہاں پر اسلحہ کی دکانیں موجود ہیں حالانکہ خار شینگس اسلحہ مارکیٹ سرکاری اراضی میں واقع ہے اور اس کا ماہانہ کرایہ بھی ڈپٹی کمشنر کے اکاونٹ میں جمع ہوتا ہے۔

اس رپورٹ کے لئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ڈی پی او باجوڑ سے فاٹا انضمام کے بعد سے اب تک ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واقعات کی تفصیل مانگی گئی لیکن انہوں نے فراہم نہیں کی۔

ہماری معلومات کے مطابق فاٹا انضمام کے بعد سے اب تک 7 پولیس اہلکار اور کئی سیاسی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، ان میں جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار صوبائی اسمبلی مفتی سلطان محمد اور ان کا بھائی امیدوار برائے جنرل کونسلر قاری الیاس بھی شامل ہیں۔

فاٹا انضمام کے بعد بہت سے محکموں نے ابھی تک ضم اضلاع میں کام شروع نہیں کیا جبکہ زیادہ تر قوانین اۤج بھی لاگو نہیں کئے گئے جن میں ہوم ڈیپارٹمنٹ بھی شامل ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button