بلاگزلائف سٹائل

”یا اللہ! اب اور برف باری نہیں چاہیے کیونکہ اب تو گھر جانے کی امید ہی ختم ہو گئی”

سلمیٰ جہانگیر

ہر سال برف دیکھنے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کرنا نا صرف میرا بلکہ میری فیملی کے دیگر افراد کا بھی سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہر سال دسمبر، جنوری یا فروری کے مہینے میں کچھ دنوں کے لیے وہاں جانا ہم نے اپنے اوپر فرض کر رکھا تھا لیکن مجھے ہمیشہ گلہ ہوتا کہ میں نے اتنے عرصے میں براہ راست برف باری نہیں دیکھی لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ موسم کا حال دیکھ کر ہی جائیں گے اور جس دن برف باری ہو گی اس سے ایک دن پہلے ہمارا وہاں ہونا ضروری ہے کیوں کہ اس سال ہم نے لازماً برف باری دیکھنا تھی۔

موسم کی ایپ کھول کر دیکھا تو پیر اور منگل یعنی 3 اور 4 جنوری 2022 کو برف باری تھی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ خاندان میں ایک ایمرجنسی ہوئی اور ہمارا جانا کینسل ہو گیا۔ اب جبکہ بچے بضد تھے کہ ان کی چھٹیاں ختم ہو جائیں گی اور اس سال بھی برف باری نہیں دیکھ پائیں گے تو بدھ کے دن اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ شام کو بہن کے گھر پہنچے اور اگلی صبح بہن اور بہنوئی کے ساتھ نتھیا گلی کے لئے روانہ ہوئے۔

روانگی سے قبل دھوپ نکل آئی تو بہنوں نے خفگی کا اظہار کیا کہ دھوپ نکل آئی ہے لگتا ہے سنو فال سے لطف اندوز ہونا قسمت میں ہی نہیں ہے۔ اللہ کا نام لے کر گھر سے روانہ ہوئے۔ تقریباً 3 گھنٹوں کی مسافت کے بعد ایبٹ آباد پہنچے۔ وہاں تھوڑی دیر قیام کیا، کھانا کھایا اور ظہر کی نماز پڑھی۔

وہاں سے ساڑھے تین بجے نتھیا گلی کے لیے نکلے۔ راستے میں یہی انتظار کرتے رہے کہ برف کہاں پڑی ہو گی۔ تقریباً 5 بجے کے قریب ہم ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں برف سڑک پر پڑی تھی اور گاڑی آگے نہیں جا سکتی تھی۔ چونکہ گاڑیوں کے رکنے کی وجہ سے وہاں رش کافی زیادہ ہو گیا تھا اور گاڑیاں آتے ہی رک جاتیں۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے ایسے میں گاڑی کو ایک یا دو چین لگائے جاتے ہیں تاکہ آسانی سے باقی کا سفر طے ہو سکے لیکن وہ آدمی جو چین گاڑیوں کو کرایہ پر لگاتے ہیں ایسے لوگوں کو میں اپنی زبان میں چین مافیا کہتی ہوں، ان کے مطابق ایک ٹائر کو چین لگانے کا کرایہ 800 سے 1000 روپیہ تھا۔

انہوں نے کہا ”بھائی صاحب گاڑی کو چین لگوا دیں کیونکہ ایسے یہ گاڑی نہیں جائے گی، آگے چڑھائیاں ہیں گاڑی پھسل سکتی ہے اور نقصان ہو سکتا ہے۔” گاڑی کو چین لگا کر آگے چل پڑے۔

نتھیا گلی بازار میں ہوٹل میں کمرہ بُک کروایا، فریش ہو کر رات کے کھانے کے لئے چلے گئے، سب کی خوشی کی انتہا تب نا رہی جب کھانے کا انتظار کرتے کرتے برف باری شروع ہو گئی۔ اس وقت نتھیا گلی کا درجہ حرارت منفی 7 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر کے فوراً سوشل میڈیا پر ڈال دیا تاکہ سب کو پتہ چل سکے ہم اس وقت گلیات کے موسم سے کتنے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کھانا تیار ہوا تو ہوٹل کے اندر جا کر کھانا کھایا اور اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئے کیونکہ سارا دن سفر کرنے کے بعد تھکن بہت زیادہ تھی اور آرام کی ضرورت تھی۔

رات کو میری آنکھ کھلی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ کوئی باہر سے کھڑکی کو زور سے دھکا دے رہا ہے۔ کان لگا کر سمجھ آئی کہ باہر تو طوفان ہے۔ اس وقت اپنی بھتیجی حوریہ نوال اور اپنے بھتیجے محمد ساریہ کی طرف دیکھا جو گہری نیند سو رہے تھے۔ فکر تھی کہ شور کی وجہ سے بچوں کی آنکھ نا کھلے۔ آیات الکرسی پڑھ کر دوبارہ سو گئی اور جب آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔

عامر (بھائی) نے دروازہ کھولا اور دیکھا تو رات بھر بہت برف باری ہوئی تھی اور اس وقت بھی جاری تھی۔ ہم نے گاڑی کو دیکھا تو وہ آدھی برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ تب بھی اندازہ نا ہوا کہ آگے کیا قیامت آنے والی ہے۔ ناشتہ کے لئے نیچے اترے تو برف باری میں شدت آ گئی۔ اس وقت دن کے تقریباً 11 بج رہے تھے۔ ناشتہ کرنے کے بعد نتھیا گلی کے ہوٹلز میں موجود زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کے لئے نکلے۔ مردان سے آۓ ہوئے چار دوست بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو نتھیا گلی سے اس شدید برف باری میں نکلے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہمیں وقت پر نکلنا چاہیے کیونکہ موسم کے انداز خطرناک لگ رہے تھے۔ چونکہ ہمارا ارادہ بھی اس وقت نکلنے کا تھا لیکن بھائی کے اندازے کے مطابق اس وقت نکلنا بے وقوفی تھی۔ بچوں کی پریشانی دیکھ کر فیصلہ کیا کہ 2 چین لگوا کر نکلتے ہیں لیکن چین مافیا نے 2 چین لگوانے کا 20 ہزار کرایہ مانگا تو مجبوراً رک گئے اور موسم کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

موسم کے تیور ٹھیک ہونے والے نہیں تھے لیکن پھر بھی سارا دن انتظار کرتے رہے۔ اس دوران بجلی منقطع ہو چکی تھی۔ موبائل میں چارج ختم تھا۔ اپنے پیاروں سے رابطہ منقطع تھا۔ ہوٹل کے مالک نے کہا تھا پانی کا استعمال کم کریں۔ دوبارہ رات ہوئی اور قیامت والی رات آ گئی۔ برف باری، جو رات سے شروع تھی، تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اب طوفان اور برف باری میں اور شدت آ گئی تھی۔ اس رات بچوں کے علاوہ ہم میں سے کوئی نا سو سکا۔

انگریزی فلموں میں جو خطرناک طوفان دیکھا تھا اور جو خوفناک آوازیں سنتی تھی وہ اب براہ راست سن رہی تھی اور محسوس بھی کر رہی تھی۔ رات بہت لمبی ہو گئی تھی، گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ صبح فجر کے لیے اٹھی اور دعا مانگی اللہ سے کہ اب تو ہی ہمارا آسرا ہے، یا اللہ ہماری مدد فرما!

نماز کے بعد آنکھ لگ گئی۔ پوری رات بجلی نہیں تھی اور اب تو واشرومز کے نلکوں میں بھی پانی آنا بند ہو گیا تھا۔ دروازہ کھول کے دیکھا تو حیرت کی انتہا نا رہی کیونکہ اندازے کے مطابق 5 فٹ برف باری ہوئی تھی، گاڑیوں میں سے کوئی ایک نظر نہیں آ رہی تھی۔

ہر سال جو برف باری کی خواہش کرتے رہے اس مرتبہ دعا مانگتے رہے کہ یا اللہ! اب اور برف باری نہیں چاہیے کیونکہ اب تو گھر جانے کی امید ہی ختم ہو گئی تھی کہ کیسے جائیں گے۔ بچے بار بار پوچھ رہے تھے کہ پھوپھو! کیا ہم آج گھر جائیں گے؟ ان کو کیا جواب دیتی کیونکہ کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ پشاور میں موجود کچھ دوستوں نے رابطہ کیا کہ کیا حالات ہیں، صورت حال بتائی تو ان کے توسط سے ریسکیو ون ون ٹو ٹو والے آئے، گاڑی کے آگے سے تھوڑی برف نکال کے تصویریں بنا کر چلے گئے۔

میری بھتیجی کی ویڈیو ایک نیوز چینل پر چلنے کے بعد ڈی جی گلیات نے رابطہ کیا اور یقین دہانی کروائی کہ راستے کھلے ہیں اور کل صبح آپ کو یہاں سے ریسکیو کروا دیں گے۔ لیکن افسران بالا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ راستے کھلے نہیں بلکہ دور دور تک بند ہیں لیکن ایک امید پیدا ہوئی اور اسی امید میں سو گئے۔

ہم ہفتے کی صبح 9 بجے پیکنگ کر کے تیار بیٹھے تھے لیکن افسوس وہاں کوئی نا آیا، انتظار کرتے رہے، ہوٹل میں ناشتہ کیا تو ایک اور دھکچا تب لگا جب انہوں نے 5 کپ چائے اور 3 پراٹوں کے ہم سے 2000 روپے لیے۔

اس دن ہر چیز کی قیمت 5 گنا زیادہ ہو چکی تھی۔ ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں تھا۔ پولیس والے آئے تو نایاب نے پینے کا پانی مانگا۔ ان کا جواب تھا، ”برف کو پگھلا کر پی لیں۔” اور چلے گئے۔ وہ رو پڑی۔ گاڑی سے برف ہٹانے کے لئے ریسکیو 1122 سے بیلچہ مانگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ آئے اور بیلچہ واپس لے کر چلے گئے کہ یہ ہمارا ہے آپ نے برف ہٹانی ہے اپنے لیے کوئی اور انتظام کریں۔ افسوس کا مقام تھا جو کام ریسکیو کو کرنا تھا وہ ہم کر رہے تھے اور بیلچہ بھی لے گئے۔
وہ کام جو حکومت کا تھا اور میڈیا پر دعوے کر رہی تھی وہ رضاکاروں نے انجام دیا۔ اگر حکومت کے نمائندے صرف تصویریں بنانے کے پیسے لیتے ہیں تو یہ کام تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اصل کام وہ ہے جو مصیبت میں آپ لوگوں کی مدد کے وقت کریں۔

ہم صبح سے سنتے آ رہے تھے کہ راستے کھل رہے ہیں۔ ہمارے سمیت اور فیملیز بھی تھیں جن کے ساتھ چھوٹے بچے تھے، وہ اہبے گھروں کو جانے کے لئے بیتاب تھے۔ پورا دن انتظار کے بعد رات کو ڈی جی گلیات کی نگرانی میں راستے کلیئر ہوئے اور انہوں نے لوگوں کے ہوٹلوں کا کرایہ ادا کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کا جو فیملیز رات یہاں گزاریں گی ان کے لیے صبح کا ناشتہ مفت ہو گا لیکن افسوس تب ہوا جب صبح سارے ہوٹلوں کو بند پایا۔

5 دن نتھیا گلی میں گزارے، زندگی کا سبق آموز تجربہ رہا کیونکہ ایک تو برفانی طوفان کی وجہ سے موت کو اپنے بہت ہی قریب دیکھا، دوسرا چین مافیا اور حکومتی اداروں کی سستی دیکھ کر بھی اچھے سے اندازہ ہوا کہ مری میں یہ اتنے لوگوں کی جانیں ضائع نا ہوتیں اگر حکومت وقت پر کوئی قدم لیتی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button