اسلام آباد: بری امام کے بغل میں خواجہ سراؤں کا پری باغ اور مسجدِ رحمت اللعالمین
سٹیزن جرنلسٹ عظمت حسین
”میرا نام ندیم کشش ہے اور میں ملتان میں پیدا ہوئی۔ انٹر تک کی تعلیم میں نے ملتان سے حاصل کی اور اسلامیہ ہائی حرم گیٹ سکول میں عارضی طور پر بطور پرائمری سکول ٹیچر نوکری شروع کی۔
”بچپن کی بس یادیں ہی باقی ہیں”
بچپن ہی سے گھر میں رہنا پسند کرتی تھی اور امی کے ساتھ گھر کے کام کرتی تھی، اسی لئے سب مجھے "شرمیلا لڑکا” سمجھ رہے تھے۔ لیکن جوں جوں میں بڑی ہوتی گئی میرے اندر کے انجان احساسات مجھے اپنی اصل شناخت کی طرف لے جاتے گئے کیونکہ میرا چلنا پھرنا، عادات و اطوار، اٹھنا بیٹھنا لڑکیوں والے تھے۔ ان احساسات کو لوگوں نے بھی نوٹ کرنا شروع کیا تو باہر کی باتیں گھر کے آنگن تک آنا شروع ہوئیں۔ والدین نے اپنا فرض سمجھ کر مجھے ڈرایا دھمکایا کہ اگر آپ یہ حرکتیں کرتے رہے تو "کُھسرے” آپ کو لے جائیں گے۔ یہ سن کر میں بھی ڈر جاتی کہ مجھے کیوں لے جائیں گے؟ کیونکہ مجھے اپنا آپ معاشرے سے الگ نہیں لگ رہا تھا۔ میں بھی اپنے آپ کو ایک عام انسان ہی سمجھ رہی تھی اور یہی وجہ تھی جس نے مجھے پڑھنے اور پڑھانے دونوں میں مدد دی۔
تعلیم سے فراغت کے بعد سکول میں عارضی استاد کے طور پر کام شروع کیا، ہزار کے قریب شاگرد تھے اور میں کلاس ششم کی انچارج تھی۔ لیکن سکول میں ٹیچنگ کے دوران ہی مجھ سے مختلف جگہوں سے خواجہ سراؤں نے رابطے کرنا شروع کئے کہ آپ تو ہماری جیسی ہیں آپ کو ہمارے پاس ہی آنا ہو گا لیکن مجھے یہ باتیں معیوب سی لگتیں اور ان سے کہتی کہ چل! میں آپ جیسی نہیں ہوں لیکن جب معاشرے کا عام سا فرد مجھے پہچاننے لگا تھا کہ میں خواجہ سراء ہوں تو جو خواجہ سراء تھے وہ کیوں نہ پہچانتے؟
شکل بدلی تو نام بدلا، ندیم الظفر خان بن گئی "ندیم کشش”
جب مجھ میں بسی میری پری مجھے تنگ کرنے لگی تو میں نے لاہور کا رخ کیا۔ بازار حسن یعنی "ہیرا منڈی” میں گرو کے ہاں "کوٹھے” پر ڈیرا ڈالا۔ انہوں نے مجھے جو پہلا نام دیا وہ "شبنم” تھا، بعد میں ممتاز اور آخر میں "کشش” نام دیا جس کے ساتھ میں اب تک رہ رہی ہوں۔ ملتان سے جب میں لاہور گئی تو میری عمر 17 سال تھی۔ کوٹھے پر ناچ گانا شروع کیا کبھی کبھی باہر پروگرامز میں شرکت کرنے بھی چلے جاتے تھے، لوگوں کی نظروں، اشاروں سے ان کے رویوں کو سمجھ جاتی تو اپنے آپ سے گھن آتی کہ یہ کس کام میں لگ گئی ہو؟
اس دوران فلموں تک رسائی کا موقع ملا تو اپنی قابلیت کا خوب لوہا منوایا اور چند ایک کامیاب فلموں میں کام کیا جن میں قابل ذکر "کشش، جل ترنگ اور گیت مالا” جیسی فلمیں ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود میری روح کو وہ تسکین نہیں مل رہی تھی جس کی مجھے تلاش تھی۔ شائد یہ غم تھا یا غصہ، لیکن بیشتر اوقات جب میں خواجہ سراؤں کی عاجزانہ اور مظلومانہ رویہ دیکھتی تھی تو مجھے یہ احساس ہوتا تھا کہ ہمیں یہاں تک پہنچانے میں جتنا کردار معاشرے کا ہے اتنا ہی ہمارا بھی ہے کیونکہ خواجہ سراء اکثر کہتے آئے ہیں کہ ہمارا تو کوئی نہیں ہے، ہماری کوئی نہیں سنتا، ہم تو کچھ نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔ جب میں یہ باتیں سنتی تھی تو بہت برا لگتا تھا کہ ہم کیوں کچھ نہیں کر سکتے؟ ہمارا کیوں کوئی نہیں؟ ہماری کیوں کوئی نہیں سنتا؟ اسی تڑپ نے مجھے میری منزل کے تعین میں مدد دی اور میں نے فلموں سمیت "ڈیرے” کی زندگی کو خیرباد کہہ کر اپنا اصل ہدف ڈھونڈنے اسلام آباد کی طرف چل نکلی۔
ہیرا منڈی کے ڈیرے سے "بری امام” پری باغ تک:
اسلام آباد تو سرکار کا شہر کہلاتا ہے لیکن میں تو سرکار کی سرزمین "ملتان” سے آئی تھی اسی لئے سرکار کی ہی زمین کا انتخاب کیا اور "امام بری سرکار” کے دربار پر ڈیرا ڈال دیا۔ پریوں سے عشق ہے تو پریوں کو اکٹھا کرنے یعنی ایک جگہ جمع کرنے کا سوچا اور "پری باغ” بنانے کا فیصلہ کیا۔ "پری باغ” سرکار امام بری کی جھولی میں سی ڈی اے کی زمین پر بنایا گیا جھولا ہے جس میں ہم پریاں رہتی ہیں۔ پری میں خواجہ سراء کو کہتی ہوں اور وہ اس لئے کہ خواجہ سراء کی بھی پریوں کی طرح شادی نہیں ہوتی۔ اور اسی لئے "پری باغ” میں ننھی سی خوبصورت آنکھوں والی یہ پری پہچان کے لئے لگی ہوئی ہے۔ پری باغ میں ہر وہ خواجہ سراء رہ سکتی ہے جو سیکس ورک، گانے ناچنے اور گروگری والی زندگی چھوڑنا چاہتی ہو اور باعزت طریقے سے روزگار کر کے اپنا حلال کا کمانا چاہتی ہو ۔
شی میل ایسوسی ایشن فار فنڈامینٹل رائٹس یعنی "سفر” تک کا سفر:
گھر بنا، چھت ملی تو باعزت روزگار کا خواب بھی پورا ہوا اور ایک نجی ٹی وی چینل میں بطور "میک اپ آرٹسٹ” کے کام کرنے کا موقع ملا۔ اسلام آباد آئے ہوئے 13 سال ہو گئے اور یہ تیرہ کے تیرہ سال میں نے ایک ہی ادارے کے ساتھ کام کرتے گزارے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ میں نے یہاں خواجہ سراء کمیونٹی کے لئے "شی میل فاؤنڈیش فار فنڈامینٹل رائٹس” یعنی "سفر” کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کی میں صدر ہوں اور اُس وقت تنظیم کے ساتھ دو سو سے زائد خواجہ سراء رجسٹرڈ تھیں جو کہ اب سات سو سے اوپر ہیں۔
اس تنظیم کا دائرہ کار خواجہ سراؤں کے تمام حقوق کی رسائی تک وسیع ہے۔ یعنی اس کے تحت میں اپنی کمیونٹی کے لئے مختلف اداروں سے راشن، کپڑے، علاج معالجے اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ساتھ تعلیمی وظائف کا حصول ممکن بناتی ہوں اور ان کی زندگیاں بدلنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
اس تنظیم کے تحت ہم نے اپنے محلے میں خواجہ سراء کمیونٹی کی جانب سے ایک مسجد بھی تعمیر کی جس کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھیں لیکن ہم نے یہ کہہ کر خاموش کرائیں کہ "خدا تو تمام انسانوں کا رب ہے نا کہ صرف عورت یا مرد کا، ہم بھی تو خدا کی مخلوق ہیں تو ہم کیوں نہیں بنا سکتے؟ پھر محلے والوں نے مسجد بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب مسجد بن گئی تو نام "رحمت اللعالمین” رکھ کر مولوی صاحب کے حوالے کر دیا جہاں اب محلے کے لوگ نماز پرھتے ہیں اور ہمیں اجر حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اس کے علاوہ اوپر بھی میں نے روزگار کی بات کی تو ہم ان خواجہ سراؤں کے لئے ان کی تعلیم و استعداد کے مطابق روزگار ڈھونڈتے ہیں جو دیگر غیراخلاقی کام چھوڑ کر باعزت زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اور اسی مد میں ہم نے مختلف سرکاری و غیرسرکاری اداروں جیسے ورلڈ بینک، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام و دیگر اداروں میں خواجہ سراؤں کو نوکریاں دلوائیں، کئی ایک تو اپنا روزگار کرتی ہیں۔
میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی کی ممبر بھی ہوں جس کے تحت میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے ساتھ ساتھ دیگر قابل ذکر مواقع پر خواجہ سراؤں کےحقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہوں جیسا کہ "ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹ اینڈ رولز 2018” یعنی "قانون برائے تحفظ حقوق خواجہ سراء 2018__ کو میں نے شریعت کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور اب بھی وہ کیس چل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ایک مقامی نجی ایف ایم ریڈیو کے ساتھ بطور آر جے تین سال تک کام کرتی رہی جس میں خواجہ سراؤں کے لئے ایک پروگرام "مورت ایک قدرت” کے نام سے بہت مقبول رہا۔
واضح رہے کہ میں پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر براڈ کاسٹر ہوں جس نے بطور ہوسٹ میڈیا میں اپنے حقوق کے لئے خود آواز اٹھائی۔
دو وزرائے اعظموں کے مقابلے میں الیکشن لڑا:
الیکشن لڑنے کے لئے سب سے پہلے ہمت چاہیے ہوتی ہے اور وہ مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 53 سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا اور کافی ووٹ بھی ملے۔ میرے ا لیکشن لڑنے کا مقصد ہار یا جیت نہیں بلکہ اپنی کمیونٹی کو یہ باور کرانا تھا کہ ہم بھی عام انسان ہیں، سب سے پہلے ہمارے دین میں اور پھر پاکستان کے آئین و قانون میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں لیکن اس کے حصول کے لئے آپ کو اٹھنا پڑتا ہے، لڑنا پڑتا ہے اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا پڑتی ہے۔
"میری زندگی کا مقصد"
میری زندگی کا واحد مقصد خواجہ سراؤں کی زندگی کو بدل کر ان کے بارے میں لوگوں کے خیالات میں تبدیلی لانا ہے۔ اسی مقصد کے لئے میں گھر سے نکلی ہوں، اسی مقصد کے لئے میں نے اتنی محنت کی ہے اور کر رہی ہوں۔ اگر میرا مقصد کوئی اور ہوتا تو 3 بہنوں، 5 بھائیوں اور ماں باپ کو چھوڑ کر یہاں تک نہ آتی۔ میرے بھی ارمان تھے، خواہشات تھیں، تمنائیں تھیں، بہنوں اور بھائیوں کی شادیاں اور ماں باپ کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہتی تھی مگر ایسا نہ کر سکی۔
میرے گھر میں تو کسی کو پتہ بھی نہیں تھا، ان کو تب پتہ چلا جب میری ناچ گانے کی ویڈیوز آ گئیں تو گاؤں میں شور مچا کہ "ماسٹر تو ناچنے لگ گیا” لوگوں کی انہی باتوں کی وجہ سے میرے والد صاحب وفات ہوئے۔ ماں نے عاق کر دیا لیکن میں نے مسلسل ان کی مدد کرتی رہی اور گھر مسلسل پیسے بھجواتی رہی تاکہ ان کو کبھی اکیلے پن کا احساس نہ ہو اور نہ ان پر کبھی تنگی آئے۔ ادھر کوٹھے پر گرو کو بھی خوش رکھنا پڑتا تھا۔ مختصر یہ کہ سب کی خوشی کے لئے اپنی خوشیاں قربان کیں، اپنی خواہشات کو روند ڈالا، راستے کی تلخیاں اور تنگیاں برداشت کیں مگر "سفر” کا سفر جاری رکھا۔”