پشاور میں اقلیتی برادری میتوں کو جلانے کے بجائے دفنانے پر مجبور کیوں ؟
سلمیٰ جہانگیر
” اپنی سولہ سالہ جوان بیٹی پونم کی اچانک موت سے میں صدمہ میں آگیا تھا، بیٹی کے بچھڑنے کے ساتھ اس بات پر بھی غمزدہ تھا کہ بیٹی کی آخری رسومات اپنے مذہبی طور طریقے پر نہیں کرسکونگا کیونکہ پشاور شہر کے اندر ہمارے ہندووں کے لئے کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں اور غربت مجھے بیٹی ( پونم) کی میت شہر سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی”۔
رام لال کے مطابق گھر والے پونم کی وفات کا غم رو رہے تھے جبکہ میں اسکا باپ اپنی بے بسی پر زارو قطار آنسو بہا رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟۔
ٹی این این کے ساتھ اپنے دکھی دل کی بپتا سناتے وقت رام لال نے بتایا اس دن میں اندھیرے کا انتظار کرتا رہا اور جب اندھیرہ چھا گیا تو میں رات کی تاریکی میں بیٹی کی میت کو قبرستان لے گیا اور انہیں وہی دفنایا لیکن جب صبح جاکر دیکھا تو ششدر رہ گیا کہ بیٹی کی لاش کے ٹکڑے قبر سے باہر پڑے تھے اور کتوں نے لاش نکال کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے تھے۔
رام لال کے بقول پونم کی چند سال پہلے قبل گردن توڑ بخار کی وجہ سے فوت ہوئی تھی۔بیٹی کی جدائی کا صدمہ تو وقت کے ساتھ مدھم ہو گیا لیکن مذہبی رسومات کے مطابق اس کی تدفین نہ ہونے اور لاش کی بے حرمتی کے زخم ابھی تک ان کے دل و دماغ پر تازہ ہیں ۔یہ دکھ کسی ایک کا نہیں بلکہ خیبر پختونخوا میں شمشان گھاٹ کی دوری اور غربت کی وجہ سے پشاور کی ہندو کمیونٹی اپنے مردوں کو جلانے کے بجائے دفنانے پر مجبور ہیں۔
مائینارٹی رائٹس پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی نے شمشان گھاٹ کے مسئلے کو دیرینہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ 1985 میں سکھ اور ہندو اقلیتی کمیونٹی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ ان کے لئے پشاور شہر کے اندر شمشان گھاٹ بنایا جائے۔
انہوں نے بتایا اس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے اس وقت اقلیتی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کمیٹی کی سفارشات پر ڈپٹی کمشنر نے اٹک کے مقام پر شمشان گھاٹ کے لیے اراضی خریدی اور سرکاری بجٹ سے اس اراضی پر شمشان گھاٹ بنایا گیا جبکہ اس وقت پشاور میں اتنی بے ہنگم ٹریفک نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔
ٹونی کے بقول متعین کردہ جگہ پر آسانی سے میت کو لے جایا جا سکتا تھا اور رسومات کی ادائیگی کے بعد وہاں سے آسانی سے واپسی بھی ہو جاتی لیکن پچھلے 30 برسوں میں پشاور کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے میت کو وہاں تک لے جانے کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔
رادیش سنگھ ٹونی نےمزید بتایا کہ گزشتہ 10 برسوں سے ہندو اور سکھ کمیونٹی یہ مطالبہ کررہی ہے کہ ان کو پشاور میں شمشان گھاٹ کے لئے زمین فراہم کرکے اس پر شمشان گھاٹ بنا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں اوقاف کی اراضی بہت زیادہ ہے لیکن اب تک اس بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔بعدازاں ایک بار پھر ڈپٹی کمشنر نے ایک کمیٹی بنائی، اس وقت کے ایم پی اے روی کمار نے کوشش کی کہ شمشان گھاٹ کے لئے جگہ مل سکے لیکن جو جگہ شمشان گھاٹ کے لئے منتخب کی گئی تھی اس پر اعتراضات اٹھائے گئے اور روی کمار کی کوششوں کے باجود یہ مسئلہ ابھی تک حل نا ہو سکا۔
خیبر پختونخوا میں ہندو او سکھ کمیونٹی کی تعداد کتنی ہے؟
رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق خیبر پختونخوا میں ہندو تقریباً 7 سے 8 ہزار ، جبکہ سکھ کمیونٹی کی تعداد 20 سے 25000 تک ہے، اور یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ضم اضلاع میں آباد سکھ کمیونٹی کے علاوہ صوبے کے کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں زیادہ تر بچے ابھی تک رجسٹرڈ نہیں ہیں اس وجہ سے وہ لوگ گنتی میں نہیں آتے لیکن اگر وہاں کی سکھ کمیونٹی کو بھی شامل کر لیں تو ان کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔
مائینارٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل کے مطابق پاکستانی آبادی کو مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر کئی اقلیتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اگرچہ سرکاری سطح پر اقلیت کی کوئی باقاعدہ تعریف موجود نہیں ہے۔
محکمہ شماریات نے حالیہ رپورٹ میں 2017 کی مردم شماری میں مذہب کے لحاظ سے آبادی کو افراد کی تعداد کے بجائے فیصد میں جاری کیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں شمشان گھاٹ کن علاقوں میں موجود ہیں؟
مائنارٹی رائٹس پاکستان کے چیئرمین کے مطابق سوات کے علاقے خوازہ خیلہ، مینگورہ، بونیر کے علاقے پیر بابا، ڈگر اور مردان میں شمشان گھاٹ موجود ہیں جبکہ اورکزئی میں پرانے وقتوں کا ایک شمشان گھاٹ موجود ہے۔ اس کے علاوہ تیراہ میں بھی شمشان گھاٹ ہے۔ باڑہ میں رہنے والے اقلیتی کمیونٹی نے بھی اپنے لیے شمشان گھاٹ بنایا تھا۔
پشاور کے علاوہ اور کون سے علاقے ہیں جہاں شمشان گھاٹ نہیں ہیں؟
مائینارٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل کے مطابق پشاور کے علاوہ ڈی آئی خان اور نوشہرہ میں بھی کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں ہے حالانکہ اس مقصد کے لیے سرکاری طور پر بجٹ بھی منظور کیا گیا تھا لیکن شمشان گھاٹ نا بن سکے۔
انہوں نے بتایا کہ نوشہرہ کی سکھ اور ہندو برادری کے لوگ اپنے شہر سے آگے واقع مردان تک اپنی میت نہیں لے جاتے، اگرچہ مردان دور نہیں ہے لیکن وہاں کی سکھ اور ہندو کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے نوشہرہ میں ہی شمشان گھاٹ بنایا جائے۔ نوشہرہ کے علاقے میں شمشان گھاٹ کے لیے منتخب کی گئی زمین بھی مسائل کا شکار ہوئی اور وہاں شمشان گھاٹ نا بن سکا جس کی وجہ سے اقلیتی برادری کے لوگ اپنی میت اٹک لے کر جاتے ہیں۔
ممتا کماری پشاور کی رہائشی ہیں اور ان کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔ ممتا نے شمشان گھاٹ کے حوالے سے بتایا کہ ان کی فیملی کے لوگ بھی اپنی میت کی آخری رسومات اٹک کے شمشان گھاٹ میں ادا کرتے ہیں اور اس مقصد کیلئے میت کو اٹک خرد لے کر جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں شمشان گھاٹ نا ہونے کی وجہ سے ان کو اتنی دور میت لے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اگر فوتگی صبح ہوتی ہے تو میت لے جانے میں مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر 4 بجے کے بعد ہو تو پھر اگلی صبح کا انتظار کیا جاتا ہے۔”
ممتا کے مطابق اٹک شمشان گھاٹ کے اندر سکھ اور ہندوؤں کے لئے الگ الگ جگہ بنی ہوئی ہے، ہندو میت کی رسومات سے فارغ ہونے کے بعد پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ راکھ یا استیوں کو گنگا میں بہانے کے سوال پر ممتا کماری نے بتایا کہ ہمارے بزرگ ہندوستان جا کر گنگا میں راکھ بہایا کرتے تھے لیکن حالات ناسازگار ہونے کے بعد جب ہندوستان اور پاکستان کے راستے بند ہو گئے اور لوگوں کے لئے ایسا کرنا ممکن نا رہا تو ہمارے مذہبی راہنماورہنماؤں نے ہدایت کی کہ جنازے کے چوتھے دن چھوٹی گنگا یعنی اٹک میں ہی اپنی استیا بہا دیا کریں کیونکہ ویزا کے حصول میں مشکلات مذہبی رسومات میں مشکلات کا سبب بنتی ہیں اور استھیوں کو ہم گھر پر نہیں رکھ سکتے۔
ممتا کماری کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے سو سالہ موم پری نے بتایا کہ ان کو اب بھی یاد ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ان کا سارا بچپن ہندوں سہیلیوں کے ساتھ گزرا،انہوں نے کہا کہ ہم شبقدر میں رہتے تھے اور پاس ہی ڈھیرے بازار میں شمشان گھاٹ ہوتا تھا۔ جیسے ہی ہندو کمیونٹی میں میت ہوتی تو اسی وقت سارے محلے کے مسلمان گھر بار چھوڑ کر رشتے داروں کے گھر تین چار دنوں کے لئے جاتے تھے کیونکہ میت کا انتم سنسکار کرنے کے بعد بدبو ہو جاتی تھی، سرکار سے شکایت کی جس کی وجہ سے وہ شمشان گھاٹ بند کر دیا گیا۔”
موم پری نے مزید کہا ”بالکل ہندوؤں کے لئے بھی شمشان گھاٹ ہونا چاہئے لیکن آبادی جہاں ہو وہاں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے، سرکار مزید شمشان ضرور تعمیر کرے لیکن یہ آبادی سے دور ہونے چاہئیں۔”
نچلی ذات کے ہندو اپنےمردوں کو جلانے کی بجائے دفناتے ہیں لیکن اس کی وجہ شمشان گھاٹ کی عدم موجودگی کے علاوہ کچھ اور !
جھنڈا بازار پشاور کے اندرونی علاقے کا نام ہے جہاں چند ہندو خاندان رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق نچلی ذات ( شیڈول کاسٹ) سے ہے۔ اسی کاسٹ سے تعلق رکھنے والے کریم چند کے مطابق ان کے خاندان والے گزشتہ 10 برسوں سے اپنی میتوں کو دفناتے ہیں، ”اپنے دھرم کے مطابق اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا نہیں کر سکتے، مجبوراً ان کو دفنانا پڑتا ہے، مہنگائی کے اس دور میں اپنا پیٹ نہیں پال سکتے، محنت مزدوری سے بمشکل دو وقت کی روٹی ملتی ہے۔”
اگنی سنسکاری رسم کے اخراجات
کریم چند نے بتایا کہ اگنی سنسکاری رسم کے لئے کم ازکم 20000 روپے کا خرچہ آتاہے کیونکہ اس رسم کے لیے صرف لکڑی 12 من درکار ہوتی ہے جس کی قیمت بہت زیادہ ہے، ”اس کے علاوہ گھی، کافور، ناریل، تل اور اگربتیاں بھی درکار ہوتی ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ چونکہ میت جلانے کے لیے شمشان گھاٹ پشاور میں نہیں ہیں اور کہیں اور لے جانے پر الگ خرچہ آتا ہے تو اس لیے ہم نے اگنی سنسکاری کی یہ رسم ہی چھوڑ دی ہے۔”
اٹک خرد کے شمشان گھاٹ کا پشاور سے فاصلہ اور درپیش مسائل
رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق اٹک خرد کا علاقہ پشاور سے تقریباً 90 کلومیٹر تک کے فاصلے پر ہے جہاں پل کے نیچے شمشان گھاٹ بنایا گیا ہے، مہنگائی کے اس دور میں میت کو اتنی دور لے جانے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں، پرانے زمانے میں ڈھائی ہزار سے 3 ہزار روپے میں بس مل جاتی تھی آج کل وہی بس 15000 سے 20000 روپے تک کرایہ لیتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہندو یا سکھ کمیونٹی کے غریب لوگ جن کی کوئی خاص آمدن بھی نہیں ہوتی، وہ پہلے دن کے اخراجات، جو تقریباً 70 ہزار سے لے کر 1 لاکھ تک ہوتے ہیں، ادا نہیں کر سکتے تو اتنی دور تک جانا ان کے لیے نا ممکن ہی ہو جاتا ہے ۔
اقلیتی حقوق کے چیئرمین نے یہ بھی بتایا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت تو بجٹ مختص کرتی ہے لیکن وہ دو سال گزرنے کے بعد بھی استعمال نہیں ہوتا اس لئے لیپس ہو جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اصل میں اس بجٹ کو استعمال کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو ہی نہیں پاتی اس لیے پشاور میں شمشان گھاٹ نہیں بن پا رہا ۔
سکھ کمیونٹی کی جانب سے بابا گورپال سنگھ نے ہائی کورٹ میں شمشان گھاٹ کے حوالے سے ایک کیس دائر کیا تھا۔ بابا جی گروپال سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی برادری میں میت کی آخری رسومات کے لیے انھیں صوبہ پنجاب کے شہر اٹک جانا پڑتا ہے کیونکہ پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں ان کے لیے کوئی شمشان گھاٹ نہیں ہے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کافی جگہوں کو شمشان گھاٹ کے لیے پسند کیا گیا لیکن کبھی علاقے کے لوگ راضی نہیں ہوتے اور کبھی اراضی منہگی ہونے کی وجہ سے معاملہ رہ جاتا تو کہیں حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ملتی ۔
رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق ہندو اور سکھ کمیونٹی دونوں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے اس دیرینہ مسئلے کو جلد از جلد حل کر لیا جائے۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ رنگ روڈ پر بہت زیادہ سرکاری زمینیں ہیں تو وہاں کسی بھی جگہ پر یا پشاور شہر کے اندر کسی بھی جگہ جدید شمشان گھاٹ بنا دیا جائے کیونکہ آج کل جدید آلات موجود ہیں اور بجلی کے ہائی وولٹیج کے ذریعے بھی جسم کو جلایا جا سکتا ہے،اس سے بدبو نہیں پھیلتی یہ بس لوگوں کا وہم ہے ، اگر پشاور کے اندر شمشان گھاٹ بنا دیا جائے تو ہندو اور سکھ دونوں اقلیتیں ہی حکومت کے اس فیصلے کو مہربانی سمجھیں گے۔
آئین پاکستان کے شق 25 کے مطابق تمام پاکستانی برابر کے حقوق رکھتے ہیں اور تمام اقلیتوں کےلیے قبرستان اور شمشان گھاٹ کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے نہ صرف ہندو بلکہ سکھوں اور مسیحی برادری کےلیے بھی اس ضمن میں کوئی سہولیات میسر نہیں۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کا کہنا ہے کہ شہر میں شمشان گھاٹ کے نا ہونے کی وجہ مذہبی تفریق نہیں. کیونکہ گوردوارہ, چرچ یا شمشان گھاٹ بنانے میں حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ زمین کے خریدنے کا ہے.
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے بجٹ کم جبکہ زمین کی قیمت زیادہ ہوتی ہے. انہوں نے کہا کہ حکومت 1996 سے کوشش کر رہی ہے کہ شمشان گھاٹ بنا دیا جائے.انکے مطابق کوہاٹ میں شمشان گھاٹ کی تعمیر آخری مراحل میں ہے.بنوں اور نوشہرہ میں شمشان گھاٹ کے لئے زمین خریدنے کا عمل جاری ہے.