”ہسپتال میں انگلش کموڈ نہیں تھا تو گھر جانا پڑا، پریشان تب ہوئی جب واش روم میں انڈین کموڈ لگا تھا”
سمیرا لطیف
سکینہ بی بی کی جب شادی ہوئی تو انہیں کیا پتہ تھا کہ وہ شادی کے تین ماہ بعد معذور ہو جائیں گی۔ سکینہ کے مطابق اکثر ان کا پاؤں سن ہو جاتا تھا اور کئی مہینے بعد ڈاکٹر سے معائنہ کروایا تو پتا چلا کہ سکینہ کے پاؤں کی رگ سن ہو گئی ہے جس کا آپریشن کرنا پڑے گا لیکن آپریشن کروانے کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کا پاؤں ناکارہ ہو گیا اور وہ ہمیشہ کے لئے چلنے پھرنے سے قاصر ہو گئیں۔
شادی کے بعد حاملہ ہوئیں تو انہیں ہسپتال کی جانب سے الٹراساوؑنڈ اور کچھ دیگر ضروری ٹیسٹ کروانے کے لیے یورین کے نمونے مہیا کرنے کا بتایا گیا۔ سکینہ کا امتحان تب شروع ہوا جب ان کو پتہ چلا کہ ہسپتال کے واش روم میں انگلش کموڈ ہے ہی نہیں تو وہ کس طرح معذوری کی حالت میں ہسپتال کو نمونے فراہم کر سکتی ہیں۔
یہ قصہ ہے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) سے تعلق رکھنے والی خاتون سکینہ بی بی کا ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں معذور افراد کے لیے سہولیات کے فقدان سے پریشان ہیں۔
سکینہ نے بتایا، ”مجھے جب کہا گیا کہ یورین ٹیسٹ کے لئے نمونے لے کر آؤں تو واش روم جا کر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ انڈین کموڈ کو استعمال کر کے میں کس طرح ٹیسٹ نمونے فراہم کر سکتی ہوں تو مجبوراً مجھے نمونے لینے کے لیے گھر جانا پڑا۔”
سکینہ نے بتایا کہ انگلش کموڈ پر حاجت پوری کرنا کسی بھی معذور شخص کے لیے آسان ہوتا ہے جبکہ انڈین کموڈ کا استعمال معذور شخص کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
”گھر میں ٹیسٹ کے نمونے بوتل میں لے کر واپس ہسپتال گئی اور پھر ٹیسٹ کروانے کے لیے میں نے نمونے ہسپتال والوں کو مہیا کئے اور یہ پورا طریقہ کار میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا، حاملہ ہونے کے باجوجود پہلے ہسپتال اور پھر گھر اور دوبارہ مجھے ہسپتال جانا پڑا۔‘
سکینہ نے بتایا کہ جسمانی تکلیف سے ہٹ کر ہمارے پیسوں کا ضیاع بھی بہت ہوا، ”ہم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہسپتال کے چکر لگانے اور کرایوں پر بھی ہمارا بہت خرچہ ہوا۔”
سرکاری ہسپتالوں میں معذور افراد کے لیے خصوصی واش روم کی کمی کا مسئلہ صرف سکینہ کو نہیں درپیش بلکہ ہزاروں اور معذور افراد ہیں جو اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان ادارہ برائے شماریات کے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں فروری 2021 تک معذور افراد کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار چار سو اکیانوے ہے۔
ڈی آئی خان کی اگر بات کی جائے تو ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر ڈی آئی خان کے مطابق ضلع میں کل پانچ تحصیلیں ہیں: پرووآ، ڈی آئی خان، پہاڑپور، درابن اور کلاچی، ان میں معذور افراد کی تعداد لگ بھگ 50 ہزار سے زائد ہے جب کہ سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن ڈی آئی خان میں رجسٹرڈ/درج شدہ معذور افراد کی تعداد پانچ ہزار اکیاسی ہے جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔
معذور افراد کے حقوق پر کام کرنے والے محمد رفیق نے بتایا کہ خیبر پخونخوا کے ہسپتالوں میں پہلے تو معذور افراد کے لیے خصوصی واش رومز موجود نہیں ہیں اور اگر ہوتے بھی ہیں تو ان میں انڈین کموڈ لگا ہوا ہوتا ہے۔
رفیق نے بتایا، ”معذور افراد کے لیے خصوصی واش رومز کسی بھی سرکاری و نجی جگہ پر لگانا ضروری ہوتا ہے جس میں وہ آرام سے اپنی ضرورت پوری کر سکیں۔”
ہمارے معاشرے میں عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ معذور افراد عام لوگوں کی طرح کام نہیں کر سکتے جو محمد رفیق کے مطابق ایک غلط تاثر ہے۔
رفیق نے بتایا، ”اصل میں معذور افراد نارمل لوگوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں لیکن ہم نے معاشرے میں ان کو وہ سہولیات فراہم نہیں کئے جو ان کو درکار ہیں۔”
پینتیس سالہ احتشام بارکزئی کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے اور وہ محمد رفیق کی بات سے بالکل متفق ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود ہمت نہیں ہارے۔ وہ ڈی آئی خان کی گومل یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ایم فل کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ لگ بھگ 13 سالوں سے ریڈیو میں بطور میزبان اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
احتشام کی کمر 2005 میں اس وقت ٹیڑھی ہونا شروع ہوئی جب انہیں التوا کی بیماری لاحق ہوئی۔ اس بیماری کو انگریزی میں scoliosis کہتے ہیں۔ احتشام نے کہا کہ اکثر یہ بیماری ان بچوں کو لاحق ہوتی ہے جو زیادہ دیر بیٹھے رہتے ہیں یا کئی کئی گھنٹے سہارا لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ بیماری اسکول کی عمر کے بچوں میں زیادہ تر پائی جاتی ہے۔ تب ہی اس بیماری کا نام اسکول سے نکلا ہے۔
احتشام نے لاہور اور راولپنڈی میں اپنی کمر کا دو بار آپریشن کروایا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ احتشام معذوری کے بعد بہت زیادہ متاثر ہوئے اور وہ آج تک اس کا افسوس کر کے کہتے ہیں کہ وہ تو جو ہوا سو ہوا لیکن کیا ہمیشہ ہم معذور لوگ ہی ہر آسائش اور آسانیوں سے محروم رہیں گے؟
احتشام نے بتایا، ”ہم کوشش تو کر رہے ہیں کہ نارمل لوگوں کی طرح زندگی گزار سکیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اکیسویں صدی میں ڈی آئی خان کے سرکاری/نجی ہسپتال اور دفاتر میں معذوروں کے لئے انگریزی ٹائلٹس اور معیاری ریمپ نہ ہونے کے برابر ہیں یا پھر جہاں پائے جاتے ہیں وہاں سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔”
احتشام ایک سرکاری محکمے میں ملازم بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جب صبح 9 بجے گھر سے دفتر کے لئے نکلتے ہیں تب گھر سے ہی واش روم کی ضرورت پوری کر کے آتے ہیں اور شام 4 بجے نوکری سے چھٹی تک وہ مجبوری کی بنا پر ضرورت مکمل کرنے پر قابو کئے رکھتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ گھر جاتے ہی اپنا واش روم استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ شروعات میں اکثر آفس کے واش روم جاتے تھے لیکن چلنے میں دشواری ہونے پر انہوں نے اب جانا چھوڑ دیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ باہر جاؤں اور زندگی سے لطف اندوز ہوں لیکن کہیں بھی جانے سے پہلے میرے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ آتا ہے کہ اگر انگریزی ٹائلٹ اور ریمپ نہ ہوا تو بہت مسئلہ ہو جائے گا اور پھر اس طرح وہ اپنا جانا ترک کر دیتے ہیں۔
امجد پرویز محکمہ سماجی بہبود (ایس ڈبلیو ڈی) ڈی آئی خان میں معاون ہیں۔ جب اس بارے میں ہماری ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابھی تک ڈی آئی خان کے دفاتر، ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر ٹائلٹ اور ریمپ کے حوالے سے معذوروں کو سہولیات میسر نہیں کی گئیں جو کہ ان کا حق ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہسپتال میں ان کے لئے او پی ڈی کی پرچی سے لے کر ٹیسٹ کے رزلٹ تک خصوصی سہولیات میسر ہونی چاہیے، ”ہمارے ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ہسپتال کے سیکرٹری ہیلتھ کو یہ نوٹس جاری کیا گیا ہے کہ معذور افراد کے لئے ہسپتال میں ایک علیحدہ حصہ (پورشن) مختص کیا جائے، جس میں ان کے لئے ان کے معیار کا علیحدہ واش روم اور معیاری ریمپ بنائے جائیں۔ ‘
اسکے علاوہ امجد صاحب نےیہ بھی بتایاکہ ڈپٹی کمشنر ڈی آئی خان نے ہر ادارے کو جس میں اسکول سے لے کر مدرسوں اور بینکوں تک جہاں جہاں معذور افراد کی رسائی ہوتی ہے انکو نوٹس جاری کیا ہے کہ اعلی سطح کے معیاری ریمپ بنائے جائیں لیکن چونکہ ہسپتال اور دیگر ڈیپارٹمنٹ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں، تو اس حوالے سے وہ وثوق سے نہیں کہ سکتے کہ کب تک اس مئسلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: سمیرا لطیف ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والی خاتون رپورٹر ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف سماجی مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہیں۔