”میں اپنے بیٹے کیلئے چاند سی بہو لاؤں گی جو کم عمر ہو اور پیاری بھی!”
شمائلہ آفریدی
”لڑکی کی عمر زیادہ ہے، سانولی رنگت ہے، قد چھوٹا ہے، آنکھیں چھوٹی ہیں، میں اپنے بیٹے کیلئے ایک چاند سی بہو لاؤں گی جو کم عمر ہو، پیاری ہو، پڑھی لکھی ہو، سمارٹ ہو، آنکھیں بڑی، قد لمبا، بال لمبے ہوں”، یہ کسی افسانے یا ڈرامے کے کرداروں کے ڈائیلاگ نہیں، ہمارے ہی اردگرد کے لوگوں، ہم زندہ کرداروں کے الفاظ ہیں۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو رشتہ کرتے وقت ہمارے سماج میں دوسروں کی بیٹیوں کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔، وہ کس قدر درد سے گزرتی ہے کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔ جب معاشرے میں انسانیت کی تذلیل دیکھتی اور سنتی ہوں تو دل کرتا ہے کے اس تنگ نظر ظالم معاشرے سے بہت دور جا کر تنہائی اختیار کر لوں جہاں نام کا بھی کوئی انسان نہ ہو۔
جب ہم کسی انسان میں نقص نکالتے ہیں تو اس شخص کا دل دکھاتے ہیں اور اللہ تعالی کی تخلیق پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کیلئے دین اسلام کا صیحح معنوں میں مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ایسے فتنوں کے دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہم نیک راستے کی طرف جانے سے قاصر ہیں۔ ہم انسان ہو کر انسان کو انسانیت کا درجہ دینے سے محروم ہیں۔ ہمارے ہاں اسلامی معاشرہ بھی ہے اور خاندانی اقدار بھی، اس کے باوجود اللہ تعالی کی تخلیق میں نقص نکالے جاتے ہیں جو قابل افسوس ہے۔ طلاق یافتہ، بیوہ یا بڑی عمر کی خواتین کو معاشرے میں جس قسم کے اذیت ناک رویوں کا سامنا ہے، وہ ہماری تنگ نظری کی مثال ہے۔
معاشرے میں پینتیس تیس سالہ بیٹے کیلئے ماں کی جہدوجہد ہوتی ہے کہ ایسی بہو تلاش کرے جس کی عمر کم ہو، خوبصورت ہو اور کوئی نقص نہ ہو، اپنی اسی کشکمش میں معیاری رشتہ نہ ملنے کے دوران نجانے کتنی بیٹیوں میں نقص نکال نکال کر ان تذلیل کرتی چلی جاتی ہے۔
معاشرے کی اس پسماندہ ذہنیت کی وجہ سے لڑکیوں کے والدین مجبور ہو کر اپنی کم عمر بچیوں کی شادیاں کروا دیتے ہیں اور ان کے مستقبل کے خواب بکھر جاتے ہیں ۔کم عمر بیٹی کی شادی کرتے وقت والدین اور سسرال والے یہ نہیں سوچتے کہ شادی کے بعد کم عمر لڑکی ذہنی و جسمانی طور پر مضبوط ہوتی بھی ہے یا نہیں؟ کیا وہ گھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے قابل ہو گی بھی یا نہیں؟
اب اگر ہم کم عمر بچی کی شادی کرنے کی وجہ پوچھیں تو یہ جواب ملتا ہے کہ اسلام نے بالغ ہونے کے بعد شادی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم خاموش ہو جاتے ہیں کہ ہاں اسلام نے تو اجازت دی ہے لیکن اسلام نے یہ حکم بھی تو دیا ہے کہ دوسروں کی بیٹی کو وہی عزت دو جو اپنی بیٹی کو دیتے ہو، اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اپنی بیٹی کیلئے پسند کرتے ہو، اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ طلاق یافتہ، بیوہ سے بھی نکاح کیا کرو، ایک بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کیلئے جب رشتہ بھیجا جاتا ہے تو اس کے ساتھ معصوم یتیم کلیوں کو اپنانے سے انکار کیا جاتا ہے، معیوب نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں اسلام کے احکامات کسی کو یاد نہیں رہتے۔
اسلام نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اللہ تعالی کی تخلیق میں نقص نہ نکالا کرو، کسی کی تذلیل نہ کیا کرو لیکن ہمارا مسلمان سماج شادی کے معاملے میں اسلام کا ایک حکم تو پورا کر دیتا ہے لیکن اس حکم کے جو دیگر پہلو ہیں ان پر عمل پیرا نہیں ہوتا جس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوتے ہیں۔
کم عمر لڑکی کی شادی تو کروا دی جاتی ہے لیکن اسے گھر کے کام کاج کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، اس کی رہنمائی کرنے کے بجائے سسرال والوں کی طعنہ زنی شروع ہو جاتی ہے کہ شادی کی ہے، بچے پیدا کر سکتی ہو، گھر کے کام کاج بھی کرو، اسی لڑکی پر سسرال والوں کا دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ وقت سے پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہو ہو جاتی ہے۔ یہی لڑکی اپنی شادی کو بربادی سمجھ کر زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ شادی کو سکون اور تحفظ کا زریعہ سمجھا جاتا ہے لیکن متاثرہ لڑکی اس کو جہنم کا گڑھا سمجھتی ہے۔
معاشرے کا ایک اور ستم بھی ملاحظہ کیجیے کہ بڑی عمر کی کنواری لڑکی اپنے گھر میں کھائے گی پئے گی لیکن آس پاس کے لوگ اسے جینے نہیں دیتے۔ اللہ نے جو اس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے ہم اس پر اسے چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ آخر اس کو اتنا ذلیل کرتے ہیں کہ وہ احساس محرومی کا شکار ہو کر اللہ سے شکوہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ہم دوسروں کو تکلیف دینے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے کہ دوسروں کو تکلیف دے کر ہمیں بہت راحت ملتی ہے۔
خدا کے نزدیک کوئی شخص اگر برتر یا بدتر ہے تو وہ تقوی اور پرہیزگاری کی بنیاد پر ہے، شکل و صورت کا کوئی معیار خدا نے نہیں بنایا ہے۔ انسان وہ ہوتا ہے جس میں انسانیت ہوتی ہے، احساس ہوتا ہے، دوسروں کی عزت نفس کی پہچان ہوتی ہے۔ اگر ہم میں اتنا ظرف نہیں کہ ہم لوگوں کو عزت دے سکیں، اہمیت دے سکیں، محبت دے سکیں تو ہم انسان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ جب ہم کسی کی عمر اور شکل و صورت میں نقص نکالتے ہیں تو ہم اس شخص کا دل دکھاتے ہیں۔ جب ہم جسم کا ایک بال تک تخلیق کر نہیں سکتے تو پھر ہمیں اللہ کی تخلیق میں نقص نکال کر اعتراض کرنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے۔