اومیکرون: سوات کے علاقے سلام پور میں چادروں کی صنعت سے وابستہ افراد کیا کہتے ہیں؟
نوید شہزاد اور رضوان محسود سے
پاکستان میں کورونا وباء نے معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، اگرچہ وباء پر قابو پانے کے بعد کاروبار دوبارہ بحال ہونے لگے مگر اس بحالی میں ناکامیوں کا ذائقہ اب بھی موجود ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کو سیر و سیاحت کے لحاظ سے پہلا صوبہ مانا جاتا ہے جس کے سیاحتی مقامات پر کاروبار کرنے والے افراد کی معیشت کا زیادہ تر حصہ سیاحوں سے جڑا ہوا ہے مگر سیاحوں کی بندش سے چھوٹے کاروباری افراد کو کروڑوں جبکہ بڑے کاروباریوں کو اربوں روپے کا دھچکا لگا ہے۔
خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے سیاحتی ضلع سوات کے علاقہ سلام پور میں عباس خان اپنے آباؤ اجداد کے دور سے ہاتھ سے بنی گرم چادروں کا کاروبار کرتے ہیں، کہتے ہیں ”کورونا وباء پھیلنے کے بعد کاروبار کو شدید نقصان پہنچا کیونکہ وباء سے پہلے اپنا کاروبار اچھا چل رہا تھا۔”
عباس کے مطابق چادر بنانے کیلئے درکار خام مال چائنہ اور آسٹریلیا سے درآمد ہوتا ہے لیکن ایک طرف وہاں پر لاک ڈاؤن لگنے سے خام مال کی سپلائی بند ہو گئی تو دوسری طرف یہاں پر پہلے ہی سے تیار شدہ مال کی سپلائی بھی بند ہو گئی تو اس سے سلام پور چادر انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا، ”سلام پور 25 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی ہے اور یہ سارے لوگ چادر بنانے کی انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سلام پور میں بشمول خواتین اور بچے کوئی بھی بے روزگار نہیں ہے اور وہ اس صنعت میں برسر روزگار ہیں۔”
ان کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر یہاں 18 ہزار چادریں بنتی ہیں جس سے سالانہ آمدن تین ارب روپے سے زائد ہے لیکن جب کورونا وباء پھیلنے لگی تو تقریباً اسی فیصد کاروبار متاثر ہوا جس سے ڈھائی ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
انہوں نے کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وباء کی پہلی چار لہروں کے دوران حکومت نے اس صنعت کے فروغ کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں اُٹھائے لیکن اگر اومیکرون کے دوران دوبارہ لاک ڈاؤن لگایا گیا تو شائد ان کا کاروبار مزید متاثر ہو جائے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کو حکومت پاکستان نے ٹیکس فری زون قرار دیا ہے اور وہاں پر یخ بستہ ماحول اور سیاحتی مقامات کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کیلئے سیاح جوق در جوق آتے ہیں جہاں پر کاروباری افراد کا زیادہ تر روزگار سیاحوں سے جُڑا ہوا ہے۔
عباس کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار پر منفی اثرات اس وقت بھی پڑے جب سیاحوں کی آمد بند ہو گئی کیونکہ یہاں پر سیاح اکثر گرم کپڑوں کے ساتھ چادروں کی خریداری بھی کرتے تھے۔
اس کے ساتھ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں سیاحتی مقامات پر آنے والے سیاحوں کی بندش سے چھوٹے کاروباری افراد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں دریائے سندھ کے مقام پر مقامی سوغات سوہن حلوہ کے نام سے کاروبار کرنے والے صوفی منیر کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار کا بیشتر دارومدار سیاحوں پر ہے لیکن کورونا وباء کی وجہ سے بھی ان کے کاروبار کو نقصان پہنچا ہے۔
صوفی منیر کہتے ہیں "اگر لاک ڈاؤن ہوا تو ہم دوبارہ کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے کیونکہ ہمارا کاروبار بند ہو جاتا ہے اور اس سے ہماری معاشی حالت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔”
اسی طرح دریائے سندھ پر ہوٹل چلانے والے ارباز بھی کورونا وباء کی وجہ سے اپنی خراب معاشی صورتحال کا رونا رو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وباء کے دوران سیاحوں کی آمد بند ہونے سے نہ صرف ان کا کاروبار متاثر ہوا بلکہ ان کے ساتھ درجنوں کام کرنے والے مزدور بھی بے روزگار ہو گئے ہیں، "2020 میں مارچ کے مہینے سے لاک ڈاؤن لگ کیا، ہمیں تو ہوٹل کے کرائے دینے پڑتے ہیں، عیدالاضحٰی اور چھوٹی عید پر بھی لوگ نہیں آئے، کاروبار متاثر ہوا جس کی وجہ سے میرے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں کو فارغ کر دیا۔”
معاشیات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیاحتی مقامات سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ صوبے کی معیشت میں اہم کردار کرتا ہے۔ ڈی آئی خان گورنمنٹ کالج کے معاشیات کے استاد پروفیسر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ پر آنے والے سیاحوں سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ علاقے کی ترقی میں مثبت کردار کر رہا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورے ضلع کی معیشت کو 30 فیصد نقصان پہنچا ہے، ”دریائے سندھ کے اردگرد کے علاقوں کے سیاحوں کے لئے ایک تفریحی مقام ہے اور پھر ان سیاحوں سے حاصل ہونے والی آمدنی علاقے کی ترقی کی ضامن ہے لیکن بدقسمتی سے کورونا وباء نے صرف ڈی آئی خان کی معیشت کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا۔”
پاکستان میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے کاروباری افراد کو ایک بار پھر تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے لیکن ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ عوام جلد از جلد ویکسین لگائیں اور کورونا ایس او پیز پر عمل درامد کریں تاکہ وباء سے محفوظ رہ سکیں۔