لائف سٹائل

پی ٹی وی پر غیر ملکی ڈراموں کی پشتو ڈبنگ سے پشتو ڈرامہ انڈسٹری تباہی کے دہانے پر

 

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں جہاں ایک طرف دو دہائیوں پر محیط دہشتگردی نے فنون لطیفہ سے جُڑے افراد کے معاشی مسائل میں اضافہ کیا تو دوسری طرف باقی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی۔ اس وقت خیبرپختونخوا کے آرٹسٹ کس حال میں ہیں؟

پشتو ڈراموں کے معروف اداکاروں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے فنون لطیفہ سے جُڑے افراد پہلے دہشتگردی سے متاثر ہوئے پھر 2019 کے بعد کورونا وبا کی وجہ سے معاشی مسائل سے دوچار ہوئے اور اوپر سے حکومت نے نشترہال میں سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی ہیں۔

یہ بات انہوں نے ایک ایسے موقع پر بتائی جہاں خيبرپختونخوا میں سینکڑوں آرٹسٹ بے روزگار ہوچکے ہیں اور اداکاروں کے مطابق حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے آج بھی فنکار، اداکار، ویژول آرٹسٹ، سنگرز اور میوزیشن کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

پشتو اور اردو ڈراموں کے معروف اداکار جاوید بابر نے بتایا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے صوبے کے فنکار معاشی مسائل سے دوچار ہوچکے ہیں لیکن کبھی کسی فنکار نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے ہُنر کے ذریعے پیسے کمانے کو ترجیح دی، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت فنکار برادری کیلئے ایک مخصوص ٹی وی چینل لانچ کریں جس کے اخراجات فنکار برادری خود اُٹھائینگے۔

جاوید بابر نے کہا کہ صوبے میں تقریبا پانچ سو سے زائد فنکار زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں دو سو تک خواتین بھی شامل ہیں، ان میں سے بیشتر بے روزگار ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ انکے خاندان معاشی طور پر کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں ہنرمندوں کا استحصال جاری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

انہوں نے پشتو ڈراموں کے سینئر مزاحیہ اداکار سراج علی کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے پی ٹی وی کے ساتھ منسلک تھا لیکن موجودہ خراب صورتحال نے انہیں اس نہیں پر پہنچایا کہ اب وہ بازار میں لنڈے کے کپڑے بیچ رہے ہیں کیونکہ ڈراموں کی بندش کی وجہ سے وہ اسی مزدوری پر مجبور ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنرل ضیا الحق نے صوبے کے شوبز سے جڑے ہنرمند افراد کیلئے پشاور میں نشترہال بنایا جس کے چلانے کا پورا اختیار آرٹسٹ برادری کو دیا تھا، اسی طرح وہ اپنے ہنر کے ذریعے نہ صرف اپنی ثقافت اور زبان کی خدمت کرتے تھے بلکہ یہ انکے لیے رزق حلال کا بھی ذریعہ تھا۔

جاوید کے مطابق اس کے بعد ایک غیرقانونی سرکاری حکم پر اُسے دوبارہ حکومت کے حوالے کر دیا گیا جس سے ادارکاروں کا زوال شروع ہوگیا اور وہی پالیسیاں آج بھی اپنائی جا رہی ہے۔
پشاور میں اداکاروں کیلئے نشترہال موسیقی اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کا واحد مرکز تصور کیا جاتا ہے جو چودہ کنال اراضی پر مشتمل ہے اور اسے 1988 میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی مالیت سے تعمیر کیا گیا تھا۔
مگر یہ اس وقت بند ہوا جب 2002 میں صوبے میں جمعیت علمائے اسلام کی حکومت تھی۔ جسے 2008 میں دوبارہ عوامی نیشنل پارٹی کے وزیراعلٰی امیرحیدر خان ہوتی کے حکم پر کھول دیا گیا مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے اسے دوبارہ بند کر دیا جس کی وجہ بجلی کے اضافی بل اور دیگر اخراجات بتائی جاتی ہے۔
جاوید بابر نے افسوس کرتے ہوئے کہا "اگر حکومت فنکار کی اقتصادی و معاشی حالات سدھار نہیں سکتی تو ہم اچھے دل سے ملک چھوڑنے کیلئے بھی تیار ہیں، کسی بیرون ملک کے سفارتخانے سے درخواست کرینگے کہ ہمیں اپنے ملک لے چلو، یہاں ہم فاقوں کی زندگی نہیں گزار سکتے”۔

سینئر اداکار جاوید بابر نے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیرون ممالک کے ڈراموں کے بارے میں بتایا کہ آج کل سرکاری ٹیلی ویژن پر اردو زبان میں ترکی کے ڈرامے چل رہے ہیں، جس نے بھی فنکاروں کے روزگار کو نقصان پہنچایا۔

جاوید کہتے ہیں "اب پی ٹی وی پر اردو زبان میں ترکی کا ارطغرل ڈرامہ چلایا جا رہا ہے لیکن میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس سے کئی گنا بہترین پروڈکشن ہم کرسکتے ہیں اگر کوئی موقع دیں”۔
خیبرپختونخوا کے فنکاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے لیے بھی صوبہ پنجاب کے فنکاروں کی طرح مفت علاج، تعلیم، بچوں کی شادیوں کیلئے جہیز کا سامان اور ماہانہ وظیفہ کے حقوق تسلیم کیا جائے۔

پشتو ڈراموں کی معروف اور سینئر خاتون اداکارہ شازمہ حلیم نے خواتین اداکاروں کے مسائل پر بتایا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں پر پختون روایات اور اسلامی روایات کے کچھ لوگ خواتین کے فن کے اظہار پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان سخت حالات میں بھی خیبرپختونخوا کی خواتین اداکاروں نے اپنی ثقافت اور زبان کی فروغ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

شازمہ حلیم نے کہا کہ جب گزشتہ دور میں ڈرامہ انڈسٹری دہشتگردی کی لپیٹ میں آگئی اور ہر طرف سی ڈیز کے دوکانوں کو بموں سے اُڑانا شروع کردیا گیا اور اسی تناظر میں اداکاروں کو دھمکیاں دی جانے لگی تو کچھ خواتین نے اپنی جان بچانے کیلئے ڈرامہ انڈسٹری کو خیرآباد کہا۔

انہوں نے کہا کہ جب خیبرپختونخوا میں فلم، ڈرامہ اور تھیٹر چلے گا تو فنکار کو رزق ملے گا ورنہ اُنکے گھر میں فاقوں کی زندگی گزرے گی۔ "حکومت فنکار کو معاشرے کی عکاس، ثقافت اور زبان کی امین قرار تو دے رہی ہے مگر انکی فلاح و بہبود کیلئے کوئی اقدامات نہیں اُٹھاتی”۔

شازمہ حلیم نے بتایا کہ ایک طرف گزشتہ تین سالوں سے سرکاری ٹیلی ویژن پر علاقائی ڈراموں اور پروگراموں پر پابندی لگائی گئی ہے جبکہ دوسری طرف اداکار کو سوشل میڈیا کے غیر معیاری ڈراموں نے سخت نقصان پہنچایا، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خیبرپختونخوا کے پشتو زبان کے اداکاروں کیلئے سرکاری ٹیلی ویژن پر گزشتہ ادوار کی طرح ڈراموں، سٹیج شوز کا بندوبست کرے اور ساتھ ساتھ فنکاروں کیلئے نشتر ہال کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے۔

خیبرپختونخوا حکومت نے 2018 میں بے روزگار اداکاروں اور موسیقاروں کی مالی حالت بہتر بنانے کیلئے 30 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ شروع کیا تھا جو 2019 میں اداکاروں کی آپس کی اختلافات کی وجہ سے وظیفہ بند ہوگیا۔

خیبرپختونخوا کے اطلاعات تک رسائی کے قانون 2013 کے تحت محکمہ کھیل و ثقافت نے معلومات فراہم کرکے بتایا کہ اس وقت خیبرپختونخوامیں 500 سے زائد اداکار زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں سب کو مفت علاج کیلئے صحت کارڈز، 300 سے زائد افراد کو احساس کارڈز اور انکے فلاح و بہبود کیلئے 2020-21 کے مالی سال کی بجٹ میں 20 کروڑ روپے فنڈ فراہم کیے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ان اداکاروں میں 50 سے زائد افراد کی کمزور اقتصادی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو ڈراموں کی ڈبنگ کیلئے بھرتی کیا ہے جنہیں ایک پلے کی 15 سے 20 ہزار روپے تک کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔
لیکن دوسری جانب فنون لطیفہ کی اہم شاخ ویژول آرٹسٹس کورونا وبا اور سوشل میڈیا کی مقبولیت کو چیلنج نہیں سمجھتے۔ ویژول آرٹسٹس کے ہنر کو فروغ دینے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان نیشنل آرٹسٹ ایسوسی ایشن کے صوبائی چئرمین علی ساجد کہتے ہیں کہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ کوویڈ-19 کی وجہ سے ویژول آرٹ یا پینٹنگ کے شعبے سے جڑے افراد کا کوئی معاشی نقصان نہیں ہوا بلکہ یہ فن مزید بہتر ہوچکا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ لاک ڈاون کیوجہ سے اپنی کام پر توجہ دینا نہایت آسان تھا۔

علی ساجد نے کہا کہ وبا کی صدمے سے نکلنے کیلئے لوگوں میں پینٹنگز اور ویژول آرٹ میں دلچسپی لینے کے اثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوویڈ-19 کی وجہ سے ویژول آرٹ کے قومی اور بین الاقوامی بیشتر مقابلے آن لائن ہوچکے ہیں اور اسی طرح کاروبار بھی آن لائن کیا جاتا ہے۔

دوسرے صوبوں کے مقابلے میں خیبرپختونخوا میں آرٹ میں عدم دلچسپی کی وجہ کیا ہے اس حوالے سے علی ساجد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اُسکی بنیادی وجہ صوبے میں رائج نصاب کا بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ ہونا ہے جبکہ دوسری وجہ اساتذہ کا زیادہ توجہ عملی کام پر نہ ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویژول آرٹ میں 70 فیصد کام عملی طور پر کیا جاتا ہے لیکن صوبے میں عملی کام کا انتہائی فقدان پایا جاتا ہے” اگر نصاب کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جائے اور یونیورسٹیوں میں زیادہ توجہ پریکٹیکل پر دی جائے تو نہ صرف طلبا کے کام کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی گی بلکہ عوام کی دلچسپی کا باعث بھی بنے گی”۔

علی نے صوبے میں آرٹ کو فروغ دینے کیلئے صوبائی حکومت کے اقدامات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب خیبرپختونخوا میں دوسری بار پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو پشاور میں ڈویژنل آرٹ گیلری کے قیام کیلئے 20 کروڑ روپے فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر آج تک وہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سید فرقان نے ٹی این این کو بتایا کہ ثقافت سے جڑے افراد کیلئے مختص 20 کروڑ روپے تقربیاً ڈیڑھ سال سے خرچ نہیں کئے گئے جس کی وجہ سابق قبائلی اضلاع کو بھی محکمے کی نیچے لانا تھا تو اسکے لئے مجموعی نظام قائم بنانا تھا تو اس وجہ سے 20 کروڑ روپے کو خرچ نہیں کیا گیا۔
سید فرقان کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں پہلے ثقافتی معاملات کیلئے ٹورازم اینڈ کلچر خیبرپختونخوا (ٹی سی کے پی) کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا تھا جس کو فاٹا مرجر کے بعد ٹورازم اینڈ کلچر اتھارٹی (ٹی سی اے) کا نام دیا گیا اور اس میں سابق قبائلی اضلاع کو بھی شامل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اب ٹی سی اے کیلئے الگ باڈی بنائی گئی ہے جس میں متعلقہ حکام اداکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے بیس کروڑ روپے کیلئے ایک پی سی ون تیار کریں گے اور اس پالیسی کے مطابق یہی رقم خرچ ہوگا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button