صحافیوں کو زندگی کے ساتھ ساتھ دال روٹی کے بھی لالے پڑ گئے
نسرین جبین
پشاور پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق پشاور کے رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد 564 ہے جن میں سے 274 صحافیوں کو ملازمت سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 50 صحافیوں نے آئی ٹی این ای میں کیس فائل کیے جن میں سے دس کیسز کا فیصلہ دے دگیا ہے۔ پشاور میں 90 فیصد صحافیوں کے پاس اپوئنمنٹ لیٹرز نہیں ہیں اور جن کے پاس ہیں ان کی سال ہا سال سے تجدید نہیں کی گئی اور اپنا کیس ٹریببیونل میں لے جانے کے لیے ان کے پاس ثبوت بھی نہیں ہیں جس کے باعث صحافی مالی استحصال کا شکار اور جاب سیکورٹی اور سیفٹی سے محروم ہیں۔
”روزمرہ معمول کے مطابق ایک صبح آفس آیا تو مجھے ریسپشن پر کہا گیا کہ آپ اپنا آفس کا کارڈ اور کیمرہ دفتر کے حوالے کر دیں اور اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ چلے جائیں اور اپنا حساب کر لیں۔” یہ بتاتے ہوئے ایک قومی اردو اخبار میں 17 سال تک کام کرنے والے پشاور کے سینئر فوٹو گرافر غفار بیگ کی آواز بھر آئی۔ ”میرا کیمرہ اور دوسرا سامان تو میری اولاد کی طرح تھے جسے میں نے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھا تھا اور جب یہ (کیمرہ) 17 سال کا جوان ہو گیا اور مجھ سے میرا کیمرہ ادارے نے واپس مانگا تو مجھے لگا جیسے میرا بیٹا مجھ سے چھینا جا رہا ہے، کیمرے سے میری جذباتی محبت کے ساتھ ساتھ یہ میرے روزگار کا وسیلہ بھی تھا جو کہ اب بڑھاپے میں میرا سہارا تھا لیکن ادارے نے بیک جنبش قلم مجھے میری محبت، دولت اور روزگار سے محروم کر دیا، میں اس بڑھاپے میں اب کچھ اور نہیں کر سکتا تھا اور نا ہی مجھے کوئی پنشن یا فنڈ ایسا دیا گیا کہ جو اس بے روزگاری میں میرے کام آتا اس لیے میں نے صحافیوں کے لیے قائم کردہ ادارے ITNE (امپلیمنٹیشن ٹربیونل آف نیوز پیپرز امپلائز) میں اپنا کیس دائر کیا اور چار سال سے اپنے واجبات کے حصول کے لیے چکر پر چکر لگا رہا ہوں، ایک تو میں بے رزگار ہوں، کھانے کو جیب میں پیسے نہیں اور دوسری طرف وکیل کرنے کی بھی حیثیت نہیں، ھم صحافی کس کے سامنے اپنا رونا روئیں، یماری دادرسی کرنے والا کوئی نہیں ہے، مارچ 2021 سے ٹریبیونل کے جج صاحب کی تعنیاتی نہیں ہو سکی اس لیے بھی کیسز التوا کا شکار ہیں اور دس ماہ سے ہم منتظر ہیں کہ کب ہمارے فیصلے ہوں اور ہماری مالی مشکلا ت آسان ہوں۔” غفار بیگ نے مزید بتایا۔
”میں دس سال تک اسلام آباد اور پشاور کے چکر لگاتا رہا ہوں، وکیلوں کو فیسیں دیں، ایک اڈے سے دوسرے اڈے، گرمی سردی، بارش دھوپ، تنگ دستی، بیماری اور ہر طرح کے حالات کی پرواہ کیے بغیر عدالت کی مقررہ تاریخ اور وقت پر پشاور سے اسلام آباد پہنچتا رہا لیکن آج بھی اس رقم سے محروم ہوں جو کہ میرا حق ہے، ایک طرف تو میری اپنی رقم دبائی گئی اور دوسری طرف مجھے ہی دھکے کھانا پڑے جو کہ تاحال بے سود ہیں جبکہ اب میری صحت اور بے روزگاری نے میری ہمت کم کر دی ھے لیکن حوصلہ نہیں، اپنےحق کے لیے مزید لڑوں گا ہمت نہیں ہاروں گا میرے حوصلے بہت بلند ہیں۔” یہ کہنا تھا ایک قومی انگلش اخبار میں 19 سال کام کرنے والے سینئر صحافی شمیم شاہد کا۔
انہوں نے بتایا کہ صحافتی ادرے میں 19 سال تک اپنی طاقت، ہمت اور جوانی کے دور میں ادارے کے لیے شب روز خدمت سرانجام دینے کے بعد جب وہاں سے نکلنے لگا تو مجھے ادارے کی اتنی خدمت کے بعد گھر خالی ہاتھ لوٹنا پڑا، میری گریجویٹی جو بنتی تھی وہ مجھے نہیں دی گئی، میرے 11 لاکھ روپے بنتے تھے جو ادارے نے مجھے نہیں دیئے، میں نے اپنے بقایاجات کی وصولی کے لیے صحافیوں کے لیے مختص ٹربیونل میں کیس کر دیا اور اس کے لیے مجھے اپنا وقت اور انرجی ضائع کرتے 10 سال گزر گئے ہیں اور اب بھی میں خالی ہاتھ ہوں، ٹربیونل میں مالکان وکیلوں کو تو کیس لڑنے کے لیے کروڑوں روپے دیتے ہیں لیکن کارکنوں اور ورکر صحافیوں کو ہزاروں بھی نہیں دینا چاہتے۔
شمیم شاہد نے بتایا کہ اب دس سال بعد مجھے کچھ رقم دینے کا وعدہ ٹربیونل کے ذریعے تو کیا گیا ہے لیکن اسے بھی ایک سال گزر گیا ہے اور وہ وعدہ آج بھی وعدہ ہی ہے۔
پشاور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عمران بخاری کے مطابق پشاور میں پریس کلب کے پاس رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد 564 ھے جن میں 274 صحافیوں کو ملازمت سے فارغ کیا گیا جبکہ درجنوں صحافی پشاور میں مختلف ویب سائٹس کے لیے کام کرتے ہیں جو کہ پشاور پریس کلب کے ساتھ رجسٹرد نہیں، انہیں بھی ملازمت سے نکال دیا گیا تاہم ان کے اعداد و شمار اس کے علاوہ ہیں جو کہ درجنوں کے حساب سے ہیںَ
ڈاؤن سائزنگ کے دوران ایک ٹی وی چینل کی ملازمت سے برخاست کیے گئے کیمرہ مین ناصر بخاری نے بتایا کہ ان کی سیفٹی اور سیکورٹی کا بحیثت صحافی یہ حال ھے کہ وہ اب کبھی چھولوں کی ریڑھی لگاتے ہیں تو کبھی فٹ پاتھ پر بچوں کے ریڈی میڈ کپڑے فروخت کرتے ہیں جو کہ ان کے کرائے کے گھر اور دیگر اخراجات کسی صورت پورے نہیں کر سکتے۔
ٹریبونل کو رابطہ کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں کھانے کے لالے پڑے ہیں، ہم کیس کسی صورت نہیں کر سکتے، ہم صحافیوں کو نا تو ملازمت کی سیکورٹی حاصل ھے اور نا جان و مال کی، بس جب جس کا مفاد ختم ہو جاتا ھے تو ہمیں کہہ دیا جاتا ھے کل سے نا آئیں ہیڈ آفس سے آپ کی ملازمت ختم کر دی گئی ھے۔
آر ٹی آئی سے لی گئی معلومات کے مطابق گزشتہ دس ما ہ سے آئی ٹی این ای میں جج صاحب کی پوسٹ خالی ھے اس لیے کسی کیس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
سابق نائب صدر خیبر یونین آف جرنلسٹس محمد رضوان کے مطابق پشاور کے 200 سے زائد صحافیوں نے ملازمت سے برخاست کر دینے کے بعد مالکان کے خلاف کیس اس لیے بھی نہیں کیا کہ ان کی مالی حیثیت اس کی اجازت نہیں دیتی تھی جبکہ ایک مرتبہ جس نے کیس کر دیا تو پھر وہ ہمیشہ کے لیے میڈیا کی ملازمت کے لیے نااہل سمجھ لیا جاتا ھے اسے کوئی ادارہ ملازمت نہیں دیتا کہ اس نے سابقہ مالکان پر کیس کیا تھا، صحافی سال ہا سال کی خدمات کے بعد بھی گھر خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں اور کسی سے شکوہ تک نہیں کر پاتے کہ ہمیں ملازمت سے کیوں نکالا، یا واجبات کیوں ادا نہیں کیے، جو صحافی اس قدر مالی مشکلات میں ملازمت کرتے ہیں ان کی سیفٹی اور سیکیورٹی تو بہت واجبی حیثیت اختیار کر جاتی ھے، اہم مسئلہ تو ان کی ملازمت کی سیکورٹی کا ھے کہ جب صحافی کی حیثیت ہی ختم کر دی جائے تو پھر ان اقدامات اور ان سہولتوں کا فائدہ نہیں رہتا جو اس کی سہولت کے لیے کئے جاتے ہیں، دراصل سیفٹی اور سیکورٹی تو جان اور مال دونوں کی ھے۔
مجموعی طور پر 15 سال صحافت کو دینے والی خیبر یونین آف جرنلسٹ کی سابق نائب صدر اوت دو سال سے ایک نجی ٹی وی چینل میں کام کے دوران ملازمت سے فارغ ہو جانے والی خاتون صحافی انیلا شاہین نے کہا کہ آئی ٹی این ای کا آفس اسلا آباد میں ھے جس کے باعث صحافیوں کو اور خاص طور پر ملک بھر کے بے روزگار صحافیوں کو کیس کرنے اور نمٹانے میں انتہائی تکلیف کا سامنا رہتا ھے اس لیے اس سے بھرپور فائدہ صحافیوں کو نہیں ھو رہا۔
انہوں نے تجویز دی کہ لاس ٹربیونل کی بجائے ہائی کورٹس میں موجود سیٹ اپ میں چند دن صحافیوں کے کیسز کی شنوائی کے لیے رکھیں جائیں اور نمٹائیں جائیں تاکہ اس کا حقیقی فائدہ صحافیوں کو ھو سکے اور حکومت کے کروڑوں روپے بھی بچ سکیں۔