گڑ گھانیوں میں کمی کیوں آئی ہے؟ جانتے ہیں گڑ گھانی والے کی زبانی
سدرہ ایان
”میرا نام ارشد مہمند ہے اور میرا تعلق تخت بھائی سے ہے، ”چومبے” کا کام بیس بائیس سال سے کر رہے ہیں، ابھی دو یا اڑھی ماہ ہوئے ہوں گے جب سے ہم نے ”چومبے” کا کام شروع کیا ہے۔ یہ کام سردیوں میں ہوتا ہے کیونکہ گرمیوں میں تو بہت گرمی ہوتی ہے اس لیے جو بندہ بھٹی کو آگ لگاتا ہے وہ گرمی کی وجہ سے نہیں لگا سکتا۔ ہمارے پاس گڑ گھانی والے لوگ ہوتے ہیں، جو لوگ ہمارے پاس کام کرتے ہیں وہ رات کو 3 بجے اٹھتے اور تقریباً عصر 3 یا 4 بجے تک کام کرتے ہیں۔ ایک دن میں یہ تقریباً چار پانچ یا چھ ”کوڈز” بناتے ہیں۔
ہمارے پاس ایک ”جوک مار” (بھٹی کو گ لگانے والا) ایک ”گوڑی” (گڑ نکالنے والا) اور دو پیڑے بنانے والے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے گنّا لایا جاتا ہے۔ پھر ایک اس گنے کا جوس نکالا جاتا ہے۔ پھر اسے کڑاہی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب کڑاہی میں پک جاتا ہے پھر اسے نکال کر پیسا جاتا ہے اور بوریوں میں پیک کیا جاتا ہے۔
پہلے ہم گڑ پشاور لیے کر جاتے تھے۔ اب مردان بھی مختلف جگہ جاتا ہے اور اس کے علاوہ میلے والے لوگ لے کر جاتے ہیں اور میلے میں بیچتے ہیں۔ پہلے جب ہم نے کام شروع کیا اس وقت گڑ مہنگا تھا، تقریباً 32 ”تڑی” 24 اور 25000 کی تھی۔ ”سٹا” جو ہے 32 تڑی کو کہتے ہیں اور آدھا ”سٹا” 16 تڑی کو کہتے ہیں۔
پہلے تو گڑ مہنگا تھا اب مارکیٹ تھوڑی ڈاؤن ہوئی ہے تو 20۔۔ 21000 ۔۔19000 اور 19500 میں 32 ”تڑی” بکتا ہے۔ نیچے جو نہر ہے اس کا پانی تھوڑا بہتر ہے تو اس سے کوالٹی بھی اچھی آتی ہے اور پروڈکشن بھی اچھی ہوتی ہے۔
”چومبوں” میں کمی اس لیے بھی آئی ہے کیونکہ بہت سے لوگ اتنی تکلیف برداشت نہیں کرتے، مطلب رات کو 3 بجے اٹھنا اور عصر 3 یا 4 بجے چھٹی کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے۔ پہلے لوگ گنا بہت زیادہ کاشت کرتے تھے تو پروکشن بھی زیادہ تھی، کھیتی باڑی بھی اچھی ہوتی تھی۔ اب ساری جگہیں کمرشل ہو گئی ہیں۔ ہر جگہ پراپرٹی بن گئی ہے، کہیں گھر تو کہیں پر کوارٹر تو اس وجہ سے بھی یہ کام کم ہو گیا ہے۔
پہلے اپر علاقوں کے جو لوگ ہیں جیسے اپر دیر، یا مہمند وغیرہ سے لوگ یہاں آ کر کام کرتے تھے۔ وہ لوگ اپنے لیے گڑ بنا لیتے تھے اور سیزن کے درمیان یا آخر میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور پھر استعمال کرتے تھے۔ یہاں کے جو لوکل لوگ ہیں وہ گڑ کا کام نہیں کرتے، ویسے ہی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔