چترال: وادی کریم آباد کی سڑک تعمیر ہوئی نا شوغور کا آر سی سی پل مکمل ہوا، ٹھیکیدار فنڈز کھا کر بھاگ گئے
گل حماد فاروقی
2015 کے تباہ کن سیلاب نے پورے ضلع کو ہلا کر رکھ دیا تھا، شغور کے مقام پر دریاے لٹکوہ پر لکڑیوں کا ایک جھولا پل بھی تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (C&W) نے ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا جس نے لوہے کا پل بنایا مگر وہ بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔
مقامی آبادی کے پرزور مطالبے پر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے ایک آر سی سی یعنی کنکریٹ پل کا ٹھیکہ سول ٹھیکیدار کو دیا جس نے ایک طرف فاؤنڈیشن اور پانچ عدد گارڈر بھی بنائے ہیں مگر کام ابھی تک ادھورا ہے۔ اس پل کو 13000 نفوس پر مشتمل آبادی بروئے کار لاتی ہے مگر پل کی خراب حالت کی وجہ سے آلو، مٹر، ٹماٹر اور پھل لانے والے ٹرک یا بھاری گاڑیاں نہیں گزر سکتیں۔
کریم آباد ڈیولپمنٹ موومنٹ کے ترجمان عیسی خان انجینئر کے مطابق جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ان کا دعویٰ تھا کہ ہم تبدیلی لا رہے ہیں جس پر عوام بھی خوش تھی کہ اب کرپشن ختم ہو گی اور تمام محکمہ جات صحیح کام کریں گے مگر ہم نے تبدیلی تو نہیں دیکھی البتہ تباہی ضرور دیکھی ہے کیونکہ چھ سال میں اگر ایک پل تیار نہیں ہوتا تو اسے ہم کون سی تبدیلی کا نام دیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں حبیب اللہ نے بتایا کہ اس پل کو سیلاب نے تباہ کیا تھا، اس کے بعد پاک فوج نے صوبائی حکومت کے فنڈ سے دوسرا پل بنایا جو خراب ہوا اور اسے ہر سال مرمت کرتے ہیں، پھر آر سی سی پل پر کام شروع ہوا مگر ابھی تک مکمل نہ ہو سکا۔ انہوں نے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو سے مطالبہ کیا کہ اس پل کو فوری طور پر مکمل کرے تاکہ عوام کی مشکلات میں کمی آ سکے۔
سماجی کارکن رحمان علی شاہ نے بتایا کہ اس پل کی حالت نہایت خستہ ہے اور مجھے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو پر نہایت افسوس ہوتا ہے کہ ان کی نااہلی کی وجہ سے چھ سال میں ایک پل تک نہیں بن سکا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کے خالی خولی نعروں سے بہت خوش تھے کہ کرپشن فری پاکستان ہو گا مگر یہ کرپشن فری تو نہیں بلکہ کرپشن سے بھرا پاکستان بنا دیا، ان کے سارے دعوے غلط ثابت ہو رہے ہیں اور عوام کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ حکومتی لوگوں سے تو ہمیں کوئی امید نہیں البتہ اعلیٰ عدلیہ اگر اس پر ازخود نوٹس لے اور محکمے کے خلاف قانونی کارروائی کرے تو ہو سکتا ہے کہ ان کو شرم آئے اور اس پل کو تعمیر کریں۔
علاقے کے ایک اور رہائشی وقار احمد نے بتایا کہ یہ پل تباہ ہوا تھا اس کے بعد لوہے کا ناقص پل بنایا گیا پھر آر سی سی پل پر کام شروع ہوا اس دوران اس پل کے راستے میں آنے والی زمین کے مالک نے پیسوں کا تقاضا کیا جس پر کام روک دیا گیا تاہم بعد میں اس کو زمین کی ادائیگی ہوئی اور کام شروع ہوا پھر فنڈ ختم ہوا اور کام ایک بار پھر روک دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ ہم کرپشن فری پاکستان بنا رہے ہیں، یہ تو کرپشن فری نہیں بلکہ کرپشن مزید بڑھ گئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پل کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے ورنہ عوام اس بات پر مجبور ہوں گے کہ سب اکٹھے ہو کر جلسہ جلوس کریں، لانگ مارچ کریں اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں۔
اس سلسلے میں جب محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایگزیکٹیو انجینئر (XEN) سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس پل کیلئے فنڈ ختم ہو چکا ہے تاہم انہوں نے صوبائی حکومت سے مزید فنڈ کا مطالبہ کیا ہے، جونہی فنڈ منظور ہو گا تو اس پل پر کام شروع کر کے اسے مکمل کیا جائے گا۔
علاقے کے لوگ تبدیلی سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر سینگور میں 70 کروڑ روپے کی لاگت سے لوہے کا پل چھ ماہ میں بن سکتا ہے تو شغور میں آر سی سی پل چھ سالوں میں کیوں نہیں بن سکتا لہذا اس پل کو جلد سے جلد تعمیر کریں تاکہ عوام کا دیرینہ مسئلہ حل ہو سکے ورنہ وہ اپنے حق کیلئے مجبوراً سڑکوں پر نکل آئیں گے۔