چترال: پاکستان کو بنے 74 سال گزر گئے وادی کریم آباد اور سو سوم کی سڑک آج تک نہ بن سکی
گل حماد فاروقی
پاکستان کو بنے 74 سال گزر گئے مگر وادی کریم آباد اور سو سوم کی سڑک ابھی تک نہ بن سکی۔ 13000 آبادی پر مشتمل اس خوبصورت وادی کے لوگ اب بھی سڑک سے محروم ہیں۔ کریم آباد ڈیولپمنٹ موومنٹ کے رہنماء عیسیٰ خان کے مطابق اس سڑک کا تین مرتبہ افتتاح بھی ہوا ہے اور پچھلے ماہ وزیر اعلیٰ خیبر پحتون خوا کے معاون حصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کیلاش نے عوام کو خوشخبری بھی سنائی تھی کہ اس کیلئے چالیس کروڑ روپے مزید منظور کئے گئے ہیں مگر ابھی اس کا ثمر عوام تک نہیں پہنچا۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں سابق نائب ضلع ناظم سلطان شاہ نے بتایا کہ اس سڑک پر اب تک 38 لوگ محتلف حادثات میں جاں بحق ہو چکے ہیں اور متعدد زحمی ہوئے ہیں۔ بیساکھیوں کے سہارے چلنے والے سلطان شاہ نے مزید بتایا کہ میں خود اس کی ایک زندہ مثال ہوں، ”میں اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا جس میں کئی لوگ جاں بحق ہوئے اور متعدد زحمی جن میں سے ایک میں بھی تھا، میری ٹانگ ٹوٹ گئی، سر میں گہرے زحم آئے اور میں کراچی جا کر ایک نجی ہسپتال میں علاج کے بعد اس قابل ہوا کہ اب میں لاٹھی کے سہارے چلتا ہوں، اللہ نے مجھے نئی زندگی دی۔
انہوں نے کہا کہ اس سڑک کیلئے دس کروڑ روپے منظور ہوئے تھے اور ٹھیکیدار نے کام بھی شروع کیا تھا مگر تھوڑا سا کام کرنے کے بعد ٹھیکدار غائب ہو گیا اور کام ادھورا رہ گیا۔ علاقے کے لوگوں نے الزام لگایا کہ جاوید نامی ٹھیکیدار نے سڑک پر تھوڑا سا کام کیا مگر محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس یعنی C&W کے ساتھ ملی بھگت کر کے کام ادھورا چھوڑ کر چلا گیا اور لگتا ہے کہ اس محکمہ نے ماضی کی طرح اس سڑک کو بھی کاغذات میں مکمل تعمیر شدہ ظاہر کیا ہو گا۔
سماجی کارکن شہباز خان نے بتایا کہ اس سڑک میں اتنی دشواریاں ہیں کہ لوگ خد ا خدا کر کے اپنے گھر پہنچتے ہیں، ”ہم بھی پاکستانی ہیں ہمارا بھی حق ہے کہ ہمیں حکومت سڑک بنا کر دے۔”
بی بی نصرت نے بتایا کہ اس سڑک کی حالت اتنی حراب ہے کہ مریض کو ہسپتال پہنچاتے وقت ہر وقت حطرہ رہتا ہے حاص کر خواتین کو زچگی کے دوران جب اس خطرناک سڑک پر لے جاتے ہیں تو وہ یا تو راستے ہی میں دم توڑ دیتی ہے یا پھر گاڑی ہی میں زچگی ہو جاتی ہے۔
اس سڑک کے ایک طرف سنگلاخ پہاڑ تو دوسری جانب ہزاروں فٹ گہری کھائی اور دریا بہتا ہے، اگر گاڑی کے بریک فیل ہوئے تو وہ ہزاروں فٹ نیچے جا گرے گی اور اس میں سوار کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔
صفدر علی اس سڑک پر پچھلے 17 سالوں سے گاڑی چلاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ ہم نہایت خطرے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہیں اور راستے میں خد خدا کر کے چترال پہنچتے ہیں، اس سڑک پر جتنی بھی گاڑیاں گزرتی ہیں ان سب کے ڈرائیوروں کے پاس بیلچہ کدال ضرور ہوتے ہیں تاکہ جہاں کھڈا نظر آئے تو گاڑی سے اتر کر اس میں مٹی ڈال سکیں یا پتھر ہٹا کر گاڑی آگے لے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں جب ایگزیکٹیو انجینئر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو طارق مرتضےٰ سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سڑک کا افتتاح وزیر اعلیٰ خیبر پحتون خوا نے کیا تھا اور انہوں نے اس کے ساتھ تین مزید سڑکیں بھی شامل کیں تاہم فنڈ آنے کے بعد اس پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔
انہوں نے عوامی شکایت کی نسبت کچھ نہیں بتایا کہ جاوید نامی ٹھیکیدار نے فنڈ کھا کر کام ادھورا چھوڑا اور محکمے کے افسران کی جیب گرم کر کے غائب ہو گیا۔
وادی کریم آباد کے عوام وزیر اعلیٰ خیبر پحتون خواہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس وادی کی سڑک جلد از جلد مکمل کی جائے اور جو دس کروڑ روپے اس کیلئے پہلے منظور ہوئے تھے اس حوالے سے تحقیقات کی جائیں کہ ٹھیکیدار اور محکمہ کے افسران کی ملی بھگت سے وہ فنڈ کہاں اور کیسے خرچ ہوا اور اسے کس نے ہڑپ کیا؟