لائف سٹائل

خیبر پختونخوا میں چرس کی قیمتوں میں 70 فیصد کمی، وجوہات کیا ہیں؟

افتخار خان

بھنگ کی کاشت کے لئے مشہور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں فصل سے حاصل کی جانے والی منشیات (چرس) کی قیمتوں میں 70 فیصد تک کمی آئی ہے جس کی وجہ سے کاشتکار پریشانی کا شکار ہیں۔

بھنگ کی فصل غیرقانونی ہونے کے باوجود مختلف قبائلی علاقوں میں باقاعدگی سے کاشت کی جاتی ہے جن میں خیبر اور اورکزئی اضلاع کا درہ تیراہ سرفہرست ہے اور اس درہ کے 90 فیصد سے زائد لوگوں کی معاش کا یہ واحد زریعہ بتایا جاتا ہے۔ بھنگ کی فصل سے منشیات کے علاوہ بھی مختلف مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے جن میں سب سے اہم دوائیوں اور ٹیکسٹائل میں استعمال ہے۔ بھنگ کی کاشت کو قانونی قرار دینے کے لئے وفاقی حکومت نے حال ہی میں ایک پالیسی بھی بنائی ہے تا ہم ابھی تک اس کی منظوری نہیں ہوئی ہے۔ پالیسی کے تحت بھنگ کو دوائیوں اور ٹیکسٹائل کے لئے استعمال میں لایا جا سکے گا۔

تیراہ میدان میں کاشت کی جانے والی زیادہ تر بھنگ سے منشیات ہی حاصل کی جاتی ہے جبکہ دوائیوں یا ٹیکسٹائل کے لئے اس پروڈکٹ کے استعمال کے حوالے سے ابھی تک کوئی شواہد سامنے نہیں آ سکے ہیں۔

 مقامی کاشتکاروں کے مطابق چرس کی قیمتوں میں کمی پچھلے کئی سالوں سے ریکارڈ کی جا رہی ہے لیکن 2020 میں کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد عالمی پابندیوں کے باعث چرس کی قیمتیں مقامی سطح پر انتہائی کم سطح پر آگئی ہیں، بعض تاجران اس کی بڑی وجہ افغانستان سے سمگلنگ میں تیزی اور آسانی بھی بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی پروڈکٹ کی اہمیت اور قیمت میں کمی آ گئی ہے۔

بھنگ کی کاشت کے لئے مشہور تیراہ میدان کے ایک کاشتکار محمد غنی افریدی (فرضی نام) کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 2017 میں انہوں نے اعلیٰ کوالٹی کی چرس فی کلو 65 ہزار جبکہ کم معیار کی 50 ہزار روپے تک فروخت کی تھی۔  سال 2019 میں یہ قیمتیں 25 سے 30 ہزار کے درمیان تھیں لیکن پچھلے سال ان میں اچانک مزید پچاس فیصد تک کمی آ گئی۔

انہوں نے قیمتوں میں کمی کے حوالے سے اپنے خیالات شریک کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وبا کے بعد عالمی پابندیوں کے باعث یہ قیمتیں گر گئی ہیں کیونکہ یہاں پر پیداوار پر کوئی فرق نہیں پڑا لیکن منڈیوں تک رسائی رک گئی ہے جس کی وجہ سے مقامی سطح پر پروڈکٹ کی مقدار زیادہ ہو گئی ہے۔

کورونا وباء اور عالمی پابندیوں کے باعث تو دنیا کے تقریباً ہر شعبے پر اثر پڑا ہے جس میں منشیات کا سپلائی چین بھی متاثر ہوا ہے۔

ضلع خیبر میں منشیات کے کاروبار سے وابستہ رحمان الدین (متبادل نام) کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے اگر ایک طرف ملک کے اندر دوسرے اشیا کی طرح منشیات کی سپلائی بھی رک گئی تھی اسی طرح عالمی سطح پر ہوائی اور سمندروں سفر پر پابندی کے باعث سمگلروں کے لئے دوسرے ممالک منشیات کی ترسیل کافی مشکل ہوگیا تھا لیکن اب یہ پابندیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔

تیراہ کا متبادل افغانستان کی منشیات

منشیات کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں استعمال ہونے والی منشیات کا 40 فیصد افغانستان سے سمگل ہوتا ہے جس کے لئے زیادہ تر خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔

باڑہ میں منشیات کے کاروبار سے وابستہ رحمان الدین کا کہنا ہے کہ افغانستان سے منشیات کے سمگلنگ کے راستے اب بدل چکے ہیں اور یہی مقامی منشیات کی قیمتوں میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پہلے چونکہ خیبر کے راستے افغانستان سے چرس آتی تھی تو ان منشیات اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والی منشیات پر تاجروں کا ایک جیسا خرچ آتا تھا اس لئے قیمتیں میں زیادہ اونچ نیچ نہیں آتی تھی۔ اب پچھلے چند سالوں سے افغانستان سے منشیات سمگل کرنے والوں نے بلوچستان کے چمن اور چند دیگر راستے اپنائے ہیں جو کہ انہیں انتہائی سستے پڑ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خیبر یا پشاور سے وہ لوگ لاہور ایک کلو چرس پہنچاتے ہیں تو اس پر ان کا 11 ہزار تک خرچ آتا ہے اور اسی طرح کراچی تک پہنچانے پر 16 ہزار روپے تک لگتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں چمن کے راستے افغانستان سے آنے والی منشیات کی اتنی ہی مقدار کو کراچی پہنچانے پر 3 ہزار اور لاہور پہنچانے پر 4 ہزار روپے تک لاگت آتی ہے۔ منشیات استعمال کرنے والوں کو اب افغانستان کی چرس بھی زیادہ اچھی لگتی ہے اس لئے تیراہ کی چرس کی اہمیت اور قیمتیں کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد اب مقامی تاجروں اور کاشتکاروں کو خدشہ ہے کہ وہاں بھنگ کی پیداوار مزید بڑھ جائے گی اور قیمتیں مزید گر جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ قیمتیں کم ہونے کے بعد خیبرپختوانخوا میں منشیات کے اڈوں میں کافی کمی آئی ہے کیونکہ اب یہ زیادہ فائدہ دینے والا کاروبار نہیں رہا ہے۔

تیراہ میں بھنگ کی پیداوار کیوں زیادہ ہے؟

تیراہ کے باسیوں کے مطابق انہیں جب سے یاد پڑتا ہے تو ان کی زیادہ تر زمینوں پر بھنگ کی کاشت کی جاتی ہے اور وہاں یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں سمجھی جاتی۔ تیراہ میں سرکاری مڈل سکول کے پرنسپل اور چرس کی فروخت اور استعمال کی روک تھام کے خلاف کوششیں کرنے والے ایکٹیویسٹ جمیل آفریدی نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ خیبر ضلع کے تیراہ میدان جو کہ تحصیل باڑہ کا علاقہ ہے، کی مجموعی آبادی دو سے ڈھائی لاکھ کے درمیان ہوگی اور یہاں کے تقریبا 90 فیصد لوگ بھنگ کی کاشت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تمام لوگ بھنگ کی کاشت چرس کی پیداوار ہی کے لئے کرتے ہیں تا ہم وہ یہ کبھی بھی معیوب نہیں سمجھتے کیونکہ عشروں ان کے ہاں یہ فصل اگتی آئی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس میں ان لوگوں کی بھی غلطی نہیں ہے کیونکہ 2014 تک اس کی نہ صرف کاشت بلکہ خرید و فروخت بھی قانونی تھی۔ 2015 میں مقامی انتظامیہ نے بھنگ کی فصل اور چرس کی خرید و فروخت پر پابندی تو عائد کردی لیکن ان لوگوں کو متبادل روزگار مہیا نہیں کیا گیا۔ فاٹا انضمام کے بعد اس حوالے سے منشیات کے تاجروں کے خلاف گھیرا مزید تنگ کیا گیا۔

 جمیل نے مزید بتایا کہ پابندی کے بعد چونکہ تیراہ جیسے دور دراز کے علاقے میں حکومت کی عملداری میں مشکلات کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے اس کی کاشتکاری جاری رکھی تاہم اس کے کاروبار کرنے والوں نے کھلم کھلا طور پر چرس کی خرید و فروخت بند کردی تا ہم زیادہ تر اب بھی اس کی سمگلنگ اور چھپ کر کاروبار کرنے میں مصروف ہیں۔

تیراہ میں چرس کی لوگوں کی معیشت پر اثرات کے عنوان پر اسلام آباد کے قائد اعظم یونیورسٹی میں تحیقیق کرنے والہے بخت علی شاہ کہتے ہیں کہ دراصل یہ لوگ بھنگ کی کاشت اور چرس کی فروخت کے لئے مجبور ہیں کیوںکہ حکومت نے ان لوگوں کو کوئی متبادل فصل یا کاروبار دیا ہی نہیں ہے۔ ان میں ہر سال کچھ لوگ کبھی آلو، کبھی شلجم اور کبھی دوسری سبزیاں اور فصلیں بھی اگانے کی کوشش کرتے ہیں تا ہم زیادہ زیادہ وقت، محنت اور پیسوں کے سرمایہ کے باوجود ان سے اچھی کمائی نہیں ہوتی جس کی بڑی وجہ ان سبزیوں کے لئے مارکیٹ کی عدم دستیابی ہے۔ دوسری جانب بھنگ کی کاشت اور فصل سمبھالنے میں دوسری فصلوں کی بہ نسبت محنت ، پیسہ اور وقت کم درکار ہوتا ہے لیکن اس کے لئے اچھی خاصی مارکیٹ موجود ہے۔ بھنگ کی فصل کے لئے دوسرے فصلوں جیسا زیادہ کھاد، پانی اور تخم کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بھنگ پر پابندی کے بعد حکومت کو ان لوگوں کو دیگر اجناس کی کاشت کاری کے لئے تخم، کھاد اور دیگر اشیا پر سبسڈی اور مارکیٹ تک رسائی دینی چاہئے تھی اور کھیتوں کو پانی پہنچانے کے لئے نظام پر بھی غور کرنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

تیراہ میں انوکھا چرس میلہ

جمیل آفریدی کا کہنا ہے کہ تیراہ میں ہر ہفتے ایک مخصوص دن کے لئے میلہ لگتا ہے جس میں تمام کاشت کار فصل سے حاصل ہونے والی چرس رکھتے ہیں۔ اس میلے میں ملک  بھر سے سمگلرز اور تاجران آئے ہوتے ہیں اور خریداری کرتے ہیں تا ہم بعض کاشتکار اس میلہ میں صرف اپنے پروڈکٹ کے نرخ معلوم کرنے کے لئے آتے ہیں اور قیمتیں بڑھنے کا انتظار کرتے ہیں۔

یہ ایک عام میلہ ہوتا ہے جس میں دیگر ضروریات زندگی کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہیں تا ہم ملک بھر کے سمگلروں کے لئے یہ بہت ہی خاص ہوتا ہے۔ بڑے تاجر منوں کے حساب سے خریدنے کے بعد مختلف طریقوں سے ان منشیات کو ملک کے دیگر علاقوں میں پہنچاتے ہیں۔ جمیل افریدی کا دعویٰ ہے کہ ان سمگلروں کا پولیس کے بڑے آفیسرز سمیت حکومت میں مختلف لوگوں کے ساتھ روابط اور بعض اوقات پارٹنرشپ ہوتی ہے اور تب ہی یہ مال یہاں سے نکال کر لاہور، کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں پہنچا سکتے ہیں۔ جہاں سے پھر باہر ملک بھی سمگل کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام بندہ آدھا کلو چرس بھی خیبر سے پشاور تک بھی نہیں پہنچا سکتا۔

فاٹا انضمام سے پہلے تک باڑہ تحصیل میں منشیات کے کاروبار سے وابستہ ایک شخص نے بتایا کہ تمام بڑے سمگلروں کے پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں رہائش گاہیں موجود ہیں۔ تیراہ میں سودا کرنے کے بعد پہلے مرحلے میں اکثر اوقات یہ منشیات حیات آباد پہنچائی جاتی ہے اور پھر موزوں وقت اور حالات میں دوسرے اضلاع، صوبوں یا ممالک کو سمگل کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا اب یہ بڑے سمگلرخود تیرا میدان نہیں جاتے بلکہ اپنے نمائندوں (سیلزمین) کو بھیجتے ہیں اور انہی کے ہاتھوں سودا کر لیتے ہیں۔

برف باری والی چرس مہنگی کیوں؟

اکتوبر میں کٹائی کے بعد تیراہ کے بہت ہی کم کاشتکاروں نے اس کے پودوں/پھولوں کی ٹھکائی سے چرس حاصل کی ہے جبکہ زیادہ تر کاشتکاروں کے گھروں کے سامنے اور چھتوں پر یہ پودے چھوٹی چھوٹی ”گیڈیوں” (بنڈل) کی شکل میں کھڑے کئے گئے نظر آتے ہیں۔

کاشتکار چاہتے ہیں کہ جنوری تک ان پودوں پر خوب بارش اور برف باری ہو تا کہ اس سے گرد اور گند صاف ہو سکے۔ جتنی ان کی صفائی ہو گی اتنی ہی اس سے حاصل ہونے والی چرس خالص اور مہنگی ہو گی۔

تیراہ میں بھنگ کی کاشت عمومی طور پر مارچ کے آخر میں کی جاتی ہے جبکہ پولینیشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد اگست کے مہینے میں فصل سے نر پودے نکال کر پھینک دیئے جاتے ہیں۔ کاشتکاروں کا ماننا ہے کہ نر پودوں کی فصل میں زیادہ تعداد اور پولینیشن کے بعد موجودگی سے پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے۔

کیا قیمتوں میں کمی سے منشیات کے استعمال میں اضافہ ہو گا؟

 منشیات تدارک کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے اور پاکستان نارکوٹکس کنٹرول وزارت کے 2013 کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 67 لاکھ افراد مختلف اقسام کے نشے لیتے ہیں۔ ان میں 42 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کو نشے کا عادی کہا جاسکتا ہے اور عادی افراد میں پھر 22 فیصد خواتین ہیں۔ رپورٹ کے مطابق منشیات لینے والے افراد میں زیادہ تعداد خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتی ہے۔

پشاور میں کئی عشروں سے قائم منشیات کے عادی افراد کے بحالی سنٹر دوست ویلفئیر فاونڈیشن کے سینئیر آفیسر ڈاکٹر اعزازالدین کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نشئی افراد کو نشہ بھی خالص نہیں ملتا۔ یہاں چونکہ زیادہ تر لوئر اور لوئر میڈل کلاس کے لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں اور خالص نشہ خریدنا ان کی استطاعت میں نہیں ہوتا اسی لئے ڈرگ ڈیلرز ان منشیات میں وزن اور اثر کے لئے مختلف قسم کے کیمیکل مکس کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کورونا کے آنے کے بعد ان لوگوں کی قوت خرید مزید کم ہوئی ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان کی قوت خرید کم ہونے یا قیمتیں زیادہ ہونے سے یہ لوگ منشیات کا استعمال کم کریں گے۔ یہ لوگ جہاں سے بھی ہو منشیات کے لئے رقم کا انتظام کر لیتے ہیں۔

فاونڈیشن کے عہدیدار نے بتایا کہ لوئر میڈل کلاس کے لوگوں کو پہلے بھی چرس سمیت تمام منشیات کم قیمت ملتی تھی اور شائد مزید اس میں کمی آئی ہو لیکن معاشرے میں نشے کے عادی افراد میں اضافے کا ان قیمتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی نشے کی طرف کوئی فرد اپنی دوست احباب اور معاشرے کی وجہ سے آتا ہے۔ دوست فاونڈیشن کے پاس موجود ڈیٹا کے مطابق یہاں 18 سال سے زائد عمر کے نشئی افراد میں 65 فیصد ہیروئن کے عادی ہوتے ہیں جبکہ باقی 45 فیصد چرس سمیت مختلف قسم کا نشہ ایک ساتھ کرتے ہیں۔

اسی طرح چرس کے استعمال کا رححان بڑوں کے مقابلے میں بچوں میں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر اعزاز کے مطابق نشہ استعمال کرنے والے بچوں میں 65 فیصد چرس کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ آج کل ان میں آئس کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔

منشیات کا تدارک: روک تھام کے ادارے کیا کر رہے ہیں؟

خیبرپختونخوا کے ٹیکس جمع کرنے اور منشیات کی روک تھام کے ادارے ایکسائر، ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول کے ڈیٹا کے مطابق جولائی 2019 سے دسمبر 2020 تک صوبہ بھر میں مجموعی طور پر 37 سو کلوگرام کی منشیات پکڑی جا چکی ہیں جس میں 2729 کلوگرام چرس، 409 کلو ہیروئین، 426 کلو افیون اور 130 کلوگرام آئس شامل ہیں۔ ان کاروائیوں میں مجموعی طور پر 390 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

قومی بھنگ پالیسی

تیراہ سمیت ملک کے کسی بھی علاقے میں جو بھنگ کی کاشت کی جاتی ہے ان میں زیادہ تر کاشتکار اس سے چرس ہی حاصل کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں بھنگ کی پیداوار غیرقانونی ہے۔ تاہم حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف حکومت نے اس فصل کو قانونی قرار دینے کی پالیسی بنائی ہے جس کو قومی بھنگ پالیسی کا نام دیا گیا ہے۔ پالیسی کے تحت ملک میں ادویات اور ٹیکسٹائل میں استعمال کے لئے بھنگ کی کاشت قانونی قرار دی جا رہی ہے۔

قومی بھنگ پالیسی عالمی سطح پر بھنگ پر ہوئی تحقیق کی روشنی میں بنائی گئی ہے جس کے تحت ادویات سازی اور ٹیکسٹائل میں اس پودے کی کافی اہمیت سامنے آئے ہے۔

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کا کہنا ہے کہ پالیسی کا ڈرافٹ تیار ہونے کے بعد منظوری کے لئے کابینہ کو بجھوائی گئی ہے۔ پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز جن میں وزارت تعلیم، کامرس، زراعت اور انسداد منشیات شامل ہیں، سے مشاورت کے بعد وضع کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بھنگ کی ایک ارب کی مارکیٹ ہے جس سے بہتر حکمت عملی سے پاکستان بھی اپنا حصہ نکال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھنگ کی پیداوار قانونی قرار دینے سے ہمیں ادویات اور ٹیکسٹائل کے لئے باہر ممالک پر انحصار بھی کم ہو جائے گا۔

پالیسی کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 100 کمپنیوں کو بھنگ کی کاشت کی اجازت دی جا رہی ہے جبکہ آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھائی جائے گی۔ بھنگ کی فصل کی فیلڈ کے اردگرد باونڈری وال بنائے جائیں گے اور درمیان میں کیمرے لگائیں جائیں گے تاکہ سب کچھ حکومت کے آنکھوں کے سامنے ہو۔ اس کے علاوہ پالیسی کے تحت بھنگ ریگولیٹری اتھارٹی بھی قائم کی جائے گی جہاں پر سرمایہ کاروں کے لئے ون ونڈو آپریشن ہو گا۔

دوسری جانب تیراہ میں بھنگ کی کاشت کے خلاف سرگرم عمل جمیل کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے فی الحال ایسا کچھ بھی واضح نہیں کہ عام کاشتکاروں کا کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ کیا انہیں اپنے فصل کے لئے اتنی مالی فوائد دیئے جائیں گے جو کہ وہ منشیات سے حاصل کرتے ہیں؟ انہوں نے اس ضمن میں عام لوگوں کی جانب سے پالیسی کی مخالفت کا خدشہ ظاہر کیا ہے کیونکہ بظاہر تو اس کے تحت یہ زمینیں حکومت یا نجی کمپنیوں کے قبضے میں چلی جائیں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button