وادی بمبوریت کی سڑک پر کام شروع نہ کرنے کی صورت میں سیاحوں پر پابندی لگانے کی دھمکی
کیلاش اینڈ مسلم ڈیفنس کونسل نے وادی بمبوریت کی سڑک پر کام شروع نہ کرنے کی صورت میں سیاحوں پر پابندی لگانے کی دھمکی دے دی۔ گزشتہ روز کیلاش اینڈ مسلم ڈیفنس کونسل کے زیر اہتمام آیون میں ایک پر امن احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت نصرت آزاد نے کی۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اس بات پر نہایت دکھ کا اظہار کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان دعویٰ کرر ہے ہیں کہ وہ ملک میں سیاحت کو فروغ دیں گے مگر سیاحت اچھی سڑکوں کے بغیر کیسے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش قبیلے کے لوگ دنیا بھر میں اپنی مخصوص ثقافت اور تہواروں کی وجہ سے مشہور ہیں جن کی رنگا رنگ تقریبات اور محتلف مذہبی تہواروں کو دیکھنے کیلئے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس وادی میں آتے ہیں مگر سڑکوں کی حالت اتنی حراب ہیں جس پر ایک بار جب سیاح گزر کر آتا ہے وہ دوبارہ یہاں آنے کا سو چ بھی نہیں سکتا، جب سڑکوں کی حالت اتنی حراب ہو تو سیاحت کیسے فروغ پائے گی۔
جلسے میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہوئی جسے عبد المجید قریشی نے پیش کیا۔ قرارداد کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ کیلاش وادی کی سڑک سیاحتی اور دفاعی نقطہ نظر سے نہایت اہم ہے اس لئے گزشتہ مرکزی حکومت نے اس سڑک کیلئے چار ارب پچاس کروڑ روپے مختص کئے تھے جس کا ٹینڈر بھی منظور کیا گیا تھا اور تعمیراتی کام شروع ہونے والا تھا کہ حکومت تبدیل ہوگئی اور موجودہ حکومت نے اس سڑک پر کام شروع کرنے کے حوالے سے کئی مرتبہ خوشخبری سنائی مگر عملی کام کا آغاز تاحال نہیں ہوسکا اسلئے مطالبہ ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر آیون کیلاش ویلیز کی سڑک پر کام شروع کیا جائے۔
قراداد کے ذریعے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ چترال یونیورسٹی کیلئے سید آباد میں 166 کنال زمین پہلے سے خریدی گئی ہے جس پر تعمیراتی کام شروع ہونا باقی ہے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ جامعہ چترال کو سید آباد میں تعمیر کیا جائے۔موجودہ حکومت نے یونین کونسل آیون اور بروز کے بچیوں کیلئے گرلز ڈگری کالج کی تعمیر کا آغاز کیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر کالج کیا تعمیری کام روک دیا گیا ہے اب سننے میں آیا ہے کہ بلڈنگ کیلئے زمین موزوں نہیں ہے لہذا مطالبہ ہے کہ اگر واقعی یہ زمین بلڈنگ کیلئے موزوں نہیں ہے تو کیونکر یہ زمین خرید کر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا گیا اور بچیوں کا تعلیمی نقصان کیا گیا۔
قرارداد کے ذریعے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ چترال میں متبادل ایندھن یعنی ایل پی جی گیس پلانٹ کو دوبارہ بحال کیا جائے کیونکہ آیون و ملحقہ وادیاں بشمول بروز سیاحتی مقامات ہیں جہاں کی خوبصورتی جنگلات اور قدرتی نظاروں کی وجہ سے ہے اسلئے سابقہ حکومت نے جنگلات پر دباؤ کم کرنے اور سیاحتی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کیلئے ایل پی جی گیس پلانٹ کی تنصیب کا نہ صرف اعلان کیا تھا بلکہ کروڑوں روپے کی لاگت سے دروش، بروز اور سینگور میں زمین بھی خریدی گئی تھی مگر موجودہ حکومت نے وہ منصوبہ ہی ختم کیا حالانکہ موجودہ حکومت سیاحت کو فروغ اور موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات میں کمی لانے کیلئے جنگلات کی افزائش کی دعویدار ہے لہذا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ گیس پلانٹ کا وہ منصوبہ دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ جنگلات پر بوجھ کم ہوسکے کیونکہ چترال کے لوگ کھانا پکانے اور خود کو سردی سے بچانے کیلئے لکڑی جلاتے ہیں۔
اس احتجاجی جلسے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جس میں مسلمانوں کے علاوہ وادی رمبور، بریر اور بمبوریت سے کیلاش خواتین و حضرات شامل تھے۔