شناختی کارڈ میں جنس کی تبدیلی پر جماعت اسلامی کو تحفظات کیوں ؟
جاوید محمود
انسانی حقوق کے کارکنوں نے پاکستان کے سینیٹ میں جماعت اسلامی کی جانب سے جنس کی تبدیلی کے قانون میں تجویز کردہ اس ترمیم کی تائید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نادرا میں شناختی کارڈ بنانے کے وقت اپنی خواہش کے مطابق جنس کی تبدیلی کا عمل روکا جائے اور جنس معلوم کرنے کیلئے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے لیکن خواجہ سراؤں کی نمائندہ تنظیموں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے ٹی این این کو بتایا کہ خواجہ سراؤں کی قانون 2018 میں خطرناک غلطی یہ ہوئی ہے کہ شہریوں کو یہ حق دلایا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جنس تبدیل کرے۔
انہوں نے بتایا کہ تجویز کردہ مسودہ میں میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی قیام کا ذکر اسلئے کیا گیا کہ اگر کوئی مرد خود کو خواجہ سرا قرار دیں تو میڈیکل بورڈ کے فیصلے پر وہ مردوں کے تقریبات میں شرکت کرینگے اور اسی طرح خواتین اگر خود کو خواجہ سرا قرار دیں تو وہ خواتین کے ایونٹ میں جاسکیں گے، اس سے خواتین کی تقدس کی پامالی نہیں ہوگی۔
مشتاق احمد کے سینیٹ میں 2018 کے قانون پر اُٹھائے گئے سوالات کے جواب کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران ادارے کو 28 ہزار 723 درخواستیں جنس کی تبدیلی کیلئے موصول ہوئے ہیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق 16 ہزار 530 افراد نے مرد سے خاتون اور 15 ہزار 154 خواتین نے مرد بنانے کیلئے اپیل کی ہے۔ اسی طرح مرد سے خواجہ سرا بننے کیلئے 9 جبکہ عورت سے ٹرانس جنڈر بننے کیلئے کوئی درخواست موصول نہیں ہوا ہے۔
وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق خواجہ سرا سے مرد بننے کیلئے 21 اور خواجہ سرا سے خاتون بننے کیلئے 9 درخواستیں موصول ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق مرد سے خاتون بننے کی تعداد خاتون کو مرد سے بننے سے زیادہ ہیں۔
سینٹر مشتاق خان کہتے ہیں کہ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ میڈیکل بورڈ کے تشخیص کے بغیر خواہشات کی بناء پر جنس کی تبدیلی ہے۔
مشتاق احمد کہتے ہیں "خواہش کے مطابق اپنی جنس کی تبدیلی سے وراثت کی قانون اور معاشرتی اقدار کا بھی جنازہ نکل جائے گا، اگر کوئی مرد اپنی خواہش کے مطابق خود کو خاتون قرار دیں تو امکان ہے کہ مختلف جگہوں پر خواتین کا استحصال کرے۔ اسی طرح اگر خاتون جنس تبدیل کرکے مرد بن جائے تو انہیں مردوں کے حساب سے جائیداد میں حصہ ملے گا”۔
حواجہ سراؤں کے حقوق کی تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنظیم بلیوونز کے سربراہ قمر نسیم کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں ترمیمی مسودہ سے خواتین کی استحقاق محفوظ ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان چند 12 ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے حواجہ سراؤں کو قانونی حیثیت اور الگ پہچان دی ہے، ایسے ممالک بہت کم ہیں جنہوں نے میڈیکل اور نفسیات کا تعین کئے بغیر حواجہ سراؤں کو لیگل حیثیت دے رہی ہے۔
قمر نسیم کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق دیکھ کر ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر خواجہ سراء کو ذاتی پہچان دینے سے پہلے میڈیکل کا شرط نہ بھی ہو تو ان کی مصدقہ تصدیقی عمل ضرور ہونی چاہئے اور پولیس یا متعلقہ ادراوں کو بھی یہ اختیار دینا چاہئے کہ جہاں کہیں بھی ان کو شک گزرے تو وہ متعلقہ شخص کا میڈیکل کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 کے قانون میں یہ بھی لکھا جاچکا ہے کہ اگر وراثت کا کوئی مسئلہ سامنے آجائیں تو ایسی صورت میں متعلقہ خواجہ سراء کا میڈیکل کیا جاسکتا ہے۔
قانون میں ترمیمی مسودے پر خواجہ سراؤں کا ردعمل
خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کے تنظیم کی صدر فرزانہ ریاض نے خواجہ سراؤں کی جسمانی ساخت کیلئے تجویز کردہ میڈیکل بورڈ تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انکے برادری میں بیشتر شی میلز موجود ہیں لیکن کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کے بیویاں اور بچے بھی ہیں اب انکو قانون میں ترمیم کے ذریعے خواجہ سرا برادری سے نکالنا زیادتی ہوگی۔
انہوں نے سوال اُٹھایا "اگر میڈیکل بورڈ کے ذریعے خواجہ سرا کی پہچان کرنا ہے تو پھر نادرا میں کارڈ بنانے کے وقت مرد او خواتین کی بورڈ کے ذریعے شناخت کیوں نہیں کی جاتی”؟
انہوں نے کہا کہ ہر ضلع میں خواجہ سراؤں کی ایک گرو ہوتا ہے جو اپنے تجربے کی بنیاد پر پہنچان سکتے ہیں کہ فلاں بندہ خواجہ سرا ہے اور فلاں مرد ہے۔
فرزانہ کہتی ہے کہ بعض اوقات بظاہر ایک شخص مرد نظر آ رہا ہے مگر انکے حرکات و سکنات خواجہ سراؤں جیسے ہوتے ہیں تو انہیں حق ہے کہ قانون کے مطابق وہ شناختی کارڈ میں اپنا جنس خواجہ سرہ قرار دیں۔
فرزانہ کہتی ہے کہ پورے پاکستان سے انکے برادری کے 1800 سے 1900 تک خواجہ سرا دعوت تبلیغ کا کام کرتے ہیں،انکے داڑھیاں ہیں مگر آج بھی انہیں خواجہ سرا کے نام سے پکارا جاتا ہے تو ہم کیسے انہیں میڈیکل بورڈ کے فیصلوں سے انہیں اپنی برادری سے نکالیں۔
خواجہ سرا افراد تحفظ حقوق ایکٹ 2018 کیا کہتا ہے؟
یہ قانون پاکستان کے پارلیمنٹ سے 2018 میں منظور ہوئی جس کے مطابق قانونی طور پر خواجہ سرا افراد کو برابر حقوق دینے کا تحفظ دیا گیا ہے۔ اس قانون کا مقصد ملک میں خواجہ سرا افراد کو قانونی طور پر تسلیم کرنا ہے۔ اس سے انہیں غیر خواجہ سرا افراد کی طرح تمام فوائد حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ قانون کے تحت اگر کوئی شخص اپنی جنس اپنی خواہش کے مطابق تبدیل کرنا چاہتا ہو تو انہیں قانونی طور پر اجازت دی گئی اور وہ اپنی شناختی کارڈ میں اپنی خواہش کے مطابق اپنی جنس لکھ سکتا ہے۔