خواجہ سرا ناچ گانے سے دوسرے روزگار پر کیوں چلے گئے؟
خیبرپختونخوا کے خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران انکی برادری کی معاشی صورتحال نہایت خراب ہوچکی ہیں۔ خواجہ سرا برادری کے صدور اسکی وجہ اجتماعات یا شادی بیاہ کی تقریبات کی پابندی بتا رہے ہیں تاکہ کورونا وائرس نہ پھیل سکیں لیکن دوسری جانب صوبے میں کچھ خواجہ سراؤں نے حکومتی امداد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی خراب معاشی صورتحال کو دیکھ کر دوسرے روزگار شروع کئے۔
ضلع سوات کے مینگورہ سہراب خان چوک میں رہائش پذیر عمران نامی خوجہ سرا کا کہنا ہے کہ انکی روزگار کا سارا انحصار عام عوام کی معیشت پر ہوتا ہے، جب عام لوگوں کی معیشت خراب ہو تو اس کے براہ راست اثرات انکے روزگار پر آتے ہیں۔
خواجہ سرا عمران کا کہنا ہے کہ جب صوبے میں وبا تیزی سے پھیلنی لگی تو حکومت نے ایس او پیز پر عمل درامد کے احکامات جاری کئے جس میں بالخصوص سماجی فاصلوں پر زیادہ توجہ دی گئی تھی۔ کہتی ہے کہ چونکہ انکا روزگار شادی بیاہ یا دیگر خوشیوں کے مواقع پر عوامی رش یا اجتماعات سے وابستہ ہوتا ہے تو عوامی اجتماعات پر پابندی سے انکی روزگار پر کاری ضرب لگ گئی۔
انہوں نے کہا کہ وبا سے پہلے انہوں نے اپنے دیگر ضروریات کیلئے کچھ رقم جمع کی تھی مگر تادیر پابندیوں سے انکے پیسے ختم ہوگئے جس سے نہ صرف ان پر کمرے کا کرایہ شارٹ ہوگیا بلکہ فاقوں پر مجبور ہوگئی، یہاں تک کہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئیں۔
ضلع سوات میں خواجہ سراؤں کے صدر نادیہ خان نے کہا کہ خواجہ سراؤں کی معاشی صورتحال بہتر بنانے اور انہیں خوراکی اشیاء فراہم کرنے کیلئے انہوں نے کئی درخواستوں کے ذریعے ضلعی انتظامیہ اور غیرسرکاری تنظٰیموں سے اپیل کی جس میں حکومت کے بغیر کئی غیرسرکاری تنظیموں نے انکی مدد کی۔
خواجہ سرا نادیہ کا کہنا ہے کہ انکی برادری میں چند افراد نے ویکسین لگائی ہوئی ہے لیکن جنہوں نے نہیں لگائی تو انکا موقف ہے کہ انہیں دیگر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا تو وہ ویکسین کیوں لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ انکی برادری وبا کے دوران نہایت مشکلات سے گزر گئی لیکن حکومت نے انکی کوئی مدد نہیں کی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خواجہ سرا اپنی ناچ گانے کے روزگار کے علاوہ کوئی دوسرا روزگار کر سکتے ہیں؟
خیبرپختونخوا کے پشاور اور دیگر اضلاع میں ایسے خواجہ سے بھی دیکھنے میں آئیں ہیں جنہوں نے ناچ گانے کے سیوا پیسے کمانے کیلئے دیگر قانونی روزگار بھی شروع کئے ہیں جس کی وجہ اگر کسی بھی طور پر انکی ناچ گانے کا روزگار خراب ہوجائے تو وہ زندگی گزارنے کیلئے متبادل روزگار سے پیسے کما سکتے ہیں۔
پشاور میں ڈالر نامی خواجہ سرا نے وبا کے دوران دستکاری سنٹر کھولا ہوا ہے جن میں نہ صرف خواجہ سرا برادری کو سلائی کڑھائی کا کام سکھایا جاتا ہے بلکہ خواتین کو بھی ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس مد میں وہ دیگر خواتین کے کپڑے سلوا کر پیسے کماتی ہے۔
ڈالر نامی خواجہ سرا نے ٹی این این کو بتایا کہ وبا کے دوران وہ انتہائی معاشی مشکلات کا شکار رہی تھی تو انہوں نے سوچا کہ کوئی دوسرا روزگار شروع کرے کیونکہ اس دن انہیں احساس ہوا کہ جب انکے پاس اپنے کمرے کے کرائے کے پیسے نہیں تھے اور مالک مکان ان سے کرایہ مانگتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی سے وہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی تھی تو اس ہنر سے فائدہ اُٹھانے کیلئے انہوں نے ایک دستکاری سنٹر کھولا اور دھیرے دھیرے انکی روزگار ترقی کرنے لگا۔
"پہلے دنوں میں انہوں نے خواتین اور خواجہ سراؤں کو تلقین کی کہ کیا پتہ لاک ڈاؤن برقرار رہ جائے تو پھر آپکے خرچے کہاں سے پورے کرینگے تو میرے ساتھ اسی طریقے سے خواجہ سراؤں اور خواتین نے کام شروع کیا اور اب دیگر خواتین کے کپڑے تیار کر رہے ہیں جس سے انہیں بھی پیسے کمانے کا موقع ملتا ہے اور مجھے بھی پیسے ملتے ہیں”۔
ڈالر کہتی ہے کہ ناچ گانے کے دوران وہ کئی بار ہراسمنٹ کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ وہ دوسرے افراد کے پیسوں پر انحصار کرتی تھی مگر اب وہ خود پیسے کمانے کی قابل ہوگئی ہے اور باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔
انہوں نے دیگر خواجہ سراؤں کو اپیل کی ہے کہ وہ بھی دیگر خواتین اور حضرات کی طرح ہر ہنر سیکھ سکتے ہیں اور وہ باعزت طریقے سے اپنی زندگی گزار سکتے ہیں کیونکہ انکے خیال میں انکو ناچ گانے میں کسی بھی وقت مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس سٹوری کے لیے بخت محمد، مہرین اور رفیع اللہ نے معلومات فراہم کی ہے۔