خیبر پختونخوا میں گنے کی کم سپلائی سے شوگر مل بند ہونے کے دہانے پر، ہزاروں مزدور بے روزگار ہونے کا خدشہ
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا میں شوگر ملوں کو گنے کی کم سپلائی کی وجہ سے صوبے میں شوگرملز بند ہونے کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ تحقیق کار اس بحران کی اصل وجہ خیبرپختونخوا میں گُڑ کی بڑھتی ہوئی پیداوار کی اچھی قیمتیں، زرعی زمینوں پر آبادیاں اور حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کو گنے کی موزوں قیمت ادا نہ کرنا بتاتے ہیں۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے پشاور خزانہ شوگرمل کے منیجر طالع مند خان نے بتایا کہ صوبہ بھر میں کُل آٹھ شوگرملز کام کرتے تھے اور گنے کی کم ترسیل سے چارسدہ اور تخت بھائی ملز بند ہوچکے ہیں جبکہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ امسال خزانہ اور پریمئر شوگر ملز بھی بند ہوجائیں جس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوجائیں گے۔
طالع مند خان کہتے ہیں "خیبرپختونخوا کے بیشتر علاقوں میں گُڑ کی پیداوار زیادہ مقدار میں ہوتی ہے جس کی اصل وجہ کاشتکار کو گُڑ کی زیادہ قیمت ملتی ہے اور اس تناسب سے مل کو دی جانے والی گنے کی قیمت کم ہوتی ہے اسلئے کاشتکار ملوں کو گنا دینے کی بجائے گُڑ بنانے کو ترجیح دیتے ہیں”۔
شوگرمل منیجر طالع مند نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ” ملوں کو گنا نہ ملنے کا سلسلہ گزشتہ دو سالوں سے چلتا آ رہا ہے، جسکی وجہ سے ملوں میں گنے کی کمی واقع ہوئی ہے اگر یہ سلسلہ اس سال بھی رہا تو ممکن ہے کہ خزانہ اور پریمئر شوگر ملز بند ہوجائے”۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کُل آٹھ شوگر ملز کام کر رہے تھے جن میں دو شوگر مل تخت بھائی اور چارسدہ بند ہوگئے ہیں۔ خزانہ اور پریمئر شوگر ملوں کو فی دن کیلئے چار ہزار ٹن گنے کی ضرورت ہوگی اگر یہ نہیں ملا تو شائد یہ بھی بند ہوجائیں۔
طالع مند کہتے ہیں ” گنا نہیں ملا تو مل کیسے چلے گا اور اگر مل نہیں چلتا تو ہم مزدوروں کو تنخواہیں اور دیگر مراعات کہاں سے دینگے، حکومت نے کاشتکاروں کو 200 روپے فی من کے حساب سے گنے کی قیمت مقرر کی ہے جبکہ ہم 261 روپے فی من خرید رہے ہیں لیکن پھر بھی کاشتکار گُڑ بنانے کو ترجیح دیتے ہیں اور ملوں کو گنا نہیں دیتے”۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ گُڑ کی فی من قیمت گنے کی قیمت سے زیادہ ہے اسلئے وہ مجبور ہیں کہ گنے سے گُڑ بنائیں، گنے کی کاشت کرنے والا چارسدہ کا رہائشی کاشتکار گل شیر کہتے ہیں کہ ایک من گنے سے تقریباً 400 یا 450 روپے حاصل ہوتے ہیں جبکہ مل کی طرف سے انہیں صرف 200 روپے ملتے ہیں۔
شیرگل کا کہنا ہے ” اگر مل مالکان اچھی نرخ دے رہے ہو تو ہم گُڑ بنانے کی سخت محنت سے بچ جائیں گے، اگر ایسا نہ ہو تو ہم ملوں کو گنا نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ زمینوں کی اجارہ (کرائے پر کاشت کیلئے زمین لینا) کی قیمت کے ساتھ مزدوروں کی اجرت بھی بڑھ چکی ہے تو ہم استطاعت نہیں رکھتے”۔
ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ ملوں میں گنے کی قلت کی وجہ کاشتکاروں کی ملوں کو گنا نہ دینا اور زرعی زمینوں پر آبادکاریوں سے فصل کی پیداوار میں کمی بھی ہے۔
ضلع مردان میں گنے کی تخم کی پیداوار کے تحقیقاتی ادارے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف شوگر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر برکت خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک ایسی پالیسی وضع کرے جسکے تحت زرعی زمینیں آبادکاریوں سے محفوظ ہو تاکہ مستقبل میں صوبے کے عوام خوراک کی قلت سے محفوظ رہیں۔
انہوں نے کہا کہ مردان تحقیقاتی مرکز نے اب تک ماحول کے مطابق گنے کے 12 اقسام دریافت کئے ہیں جبکہ حالیہ موسم اور اب و ہوا کیلئے اس وقت خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ، مردان، صوابی اور دیگر علاقوں کیلئے چار اقسام دریافت کئے گئے ہیں جن میں اسرار شہید 2017، عبدالقیوم 2017، مردان 2005 اور مردان 2020 شامل ہیں۔
ڈاکٹر برکت کہتے ہیں کہ پاکستان کی دیگر صوبوں کی نسبت خیبرپختونخوا میں 2005 سے گنے کی کاشت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، انہوں نے کہا کہ پنجاب میں فی ایکڑ کے حساب سے اوسطاً 66 ٹن، سندھ میں 63 اور خیبرپختونخوا میں 50 ٹن گنا پیدا ہوتا ہے۔
ماہر زراعت ڈاکٹر برکت خان نے کہا ” خیبرپختونخوا میں کاشت کی زمین دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے، سڑکیں اور ہاوسنگ سوسائٹیز بنتی جا رہی ہیں، اس وقت مردان میں گرلز کالج کیلئے 30 ایکڑ کی زمین مختص کی گئی ہے پہلے اس پر گنے کی کاشت کی جاتی تھی جس سے گنے کی کاشت کم ہوتی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر برکت خان کا دعویٰ ہے کہ کم زمین کے ذریعے زیادہ پیداوار کیلئے ہم نے جو ورائٹیز دریافت کی ہیں اُس پر کیڑوں اور سُنڈیوں کے وار کم ہوتے ہیں اسکے علاوہ ہم کاشتکاروں کو بہترین پیداوار کیلئے مشورے بھی دیتے ہیں۔
برکت خان نے کہا "بعض اوقات کاشتکار اپنے تجربے کی بنیاد پر فصل کی دیکھ بھال کرتے ہیں جس سے بیشتر اوقات فصل کے اوپر زیادہ خرچہ آتا ہے اور فصل کی پیداوار بھی اچھی نہیں ہوتی جس سے زمیندار مایوس ہوکر دوسرے فصل اُگانے پر چلے جاتے ہیں۔
زراعت کی ماہرین کی تحقیق کے مطابق خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ ہیکٹئر زمین پر گنے کی کاشت ہوئی ہے اور ایک ہیکٹئر زمین سے تقریباً پچاس ٹن گنا پیدا ہوتا ہے جس کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت بہت کم ہے اور خدشہ ہے کہ گُڑ کی پیداوار والے علاقوں میں شوگر ملز بحران کا شکار ہوجائیں۔
شوگر ملوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے حکومتی وزیر عاطف خان سے کئی بار رابطہ کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ 19 ستمبر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مرکزی حکومت کو گنے کی کاشت اور چینی کے ملوں پر پابندی کی تجویز دی ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تنویز حسین نے الزام لگایا کہ شوگرملوں کے مالکان ایک مافیا بن چکا ہے اور جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا تو چینی کی قیمتیں اوپر ہی جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت گنے کی فصل کی کاشت پر مکمل پابندی لگائیں کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی سے پانی کی قلت ہے اور گنے کیلئے پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔