وہ دن جب پشاور کے ہاسٹلز بھوت بنگلے بن گئے
ریحان محمد
سفید شاہ پشاور میں پرائیوٹ ہاسٹل کا مالک تھا اور مہینے کا ایک لاکھ رپے تک کماتا تھا لیکن کورنا وبا نے اس سے اپنا کاروبار چھین لیا اور اب قرض دار بن گیا ہے۔
کورنا وبا کی وجہ سے ملک بھر کی طرح پشاور میں بھی لاک ڈاؤن کے دوران تمام سرکاری و غیرسرکاری ادارے، کاروباری مراکز، بازاریں سب کچھ بند ہوگئے تھے جس کے بعد پشاور کے پرائیوٹ ہاسٹلوں میں مقیم طلباء بھی اپنے علاقوں کو چلے گئے اور پشاور کے ہاسٹلز بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے تھیں۔
سفید شاہ کے مطابق کورنا وباء میں سرکاری ملازمین اتنے متاثر نہیں ہوئے کیونکہ ان کو ہر مہینے کی تنخواہ مل جاتی تھی اور ان کے گھروں کے چھولے جلتے رہتے تھے لیکن کاروباری افراد کے پاس کوئی سروکار نہیں بچا تھا جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کو اپنے کاروبار سے ہاتھ دھونے پڑے۔
سفید شاہ کے ساتھ کے ساتھ ہاسٹل میں پانچ ملازم بھی تھے جو اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے لیکن لاک ڈاؤن کے دوران جب کمائی بند ہوگئی اور مالک مکان کرایہ مانگ رہا تھا جس کی وجہ سے مجبورا ان ملازموں کو بھی فارغ کیا گیا۔ سفید شاہ نے نے اپنا ہاسٹل پندرہ لاکھ روپے بھیج دیا اور قرض ادا کیا لیکن ان کے بقول اب ان کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں اور وہ پشاور میں اپنے لئے مزدوری ڈھونڈنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
پرائیوٹ ہاسٹل یونین ارباب روڈ کے صدر حمید گل نے بتایا کہ پشاور میں سینکڑوں کی تعداد میں بڑے ہاسٹلز ہیں جن کا کچھ حد تک ریکارڈ موجود ہیں جن میں تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ طلباء یا نوکر پیشہ افراد رہتے ہیں لیکن اب طلباء اور نوکر پیشہ افراد کے تعداد میں کمی کی وجہ سے بیشتر ہاسٹلز بند ہونے لگے ہیں۔
حمید گل کے مطابق پشاور یونیورسٹی روڈ، بورڈ بازار، فقیرآباد، ہشتنگری، ورسک روڈ کو ہاسٹلوں کا ہب (مرکز) کہا جاتا ہے جہاں پر زیادہ تر طلباء رہتے ہیں لیکن کورنا وبا کے دوران تعلیمی اداروں کی بار بار بندش سے اب ان علاقوں میں بھی طلباء کی تعداد کم دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے اکثر ہاسٹلز خالی پڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یونین کے عہداداروں نے حکومتی نمائندوں سے کئی بار ملاقاتیں کی ہیں اور اپنے مسائل سے آگاہ کیا ہیں لیکن ان کے ساتھ ابھی تک کسی قسم کا تعاون نہیں کیا گیا۔
سفید شاہ کے مطابق ان جیسے پرائیوٹ ہاسٹلوں کے ٹھیکیداروں کے ساتھ مالکان کی جانب سے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ان مالکان کو نہ حکومت کے جانب سے کوئی گائیڈ لائین دی گئی تھی اور نہ ہی وہ کسی کے بات سننے کیلئے تیار تھے۔ انہیں بس اپنے کرائے سے کام تھا اور ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پہنچ جاتے تھے اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے ۔ اگر حکومت کے جانب سے ان کو ہدایت جاری کی جاتی اور وہ کرائیوں میں کمی کردیتے پھر باقی کے اخراجات ہاسٹل کے ٹھیکیدار پورے کرسکتے تھے۔
کورنا وباء میں کاروبار متاثر ہونے کے بعد حکومت نے کاروباری حضرات کے ساتھ رعایت اور ان کو معاوضہ دینے کے وعدے کئے تھے لیکن اب ان میں زیادہ تر لوگوں کو نہ تو رعایت مل گئی اور نہ ہی ان کو معاوضہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سفید شاہ جیسے چھوٹے کاروبار پر گزارہ کرنے والے اب بے روزگاری کے عالم میں پریشان پھرتے ہیں۔
عظمت بنگش بھی ایک پرائیوٹ ہاسٹل چلا رہا ہے لیکن کورنا وباء میں ہاسٹل بند ہونے کی وجہ سے وہ بھی مالی مشکلات سے کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہاسٹل خالی تھا لیکن بلوں کی ادائیگی اور مالک مکان کو رینٹ دینا مشکل ہوتا جا رہا تھا جس کیلئے اس نے قرض لیکر اس وقت کام چلا لیا لیکن اب سال سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی بہتری کی امید دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ ہاسٹل میں طلباء کے تعداد انتہائی کم جس کی وجہ سے وہ قرض کی ادائیگی کے لئے پریشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے کاروبار کرنے والے افراد کے ساتھ مالی تعاون کے وعدے کئے تھے لیکن ان کے ساتھ ابھی تک کسی قسم کا تعاون نہیں کیا گیا ہے۔
حکومت کے جانب سے کورنا وباء میں بجلی کے بل نہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن سفید شاہ نے حکومت کے اس اعلان کو محض شوشہ قرار دے دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مہینے میں بجلی کا بل نہیں آیا اور اس وقت ہم بہت خوش ہوئے لیکن اگلے مہینے ڈبل سے بھی زیادہ بل آیا جس کی وجہ سے زیادہ تر ہاسٹلوں کے مالکان کو جمع کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس مہینے کے بعد ان کو اپنا بل جمع کرنا مشکل ہوگیا جس کے بعد ہاسٹل سے واپڈا والوں نے بجلی کا چیک میٹر بھی لے گئے جس کو لگانے اور بل جمع کرنے کے پیسے اس کے ساتھ نہیں تھے اور آخر کار اس کو ہاسٹل بھیجنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے ساتھ کام کرنے والوں کو تنخواہوں سمیت ہر قسم کے مراعات بھی مل گئے اور بلوں میں کمی بھی کردی گئی لیکن پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والوں کی کسی قسم کی مدد نہیں کی گئی جس کی وجہ سے نجی کاروبار کرنے والے زیادہ ان کی طرح لوگ آج ٹھوکرے کھا رہے ہیں۔
پشاورکے ہاسٹلوں کا ماہانہ فیس پانچ ہزار سے لیکر پندرہ ہزار تک فی فرد ہے اور ایک ہاسٹل میں پچاس سے لیکر پانچ سو تک افراد کے رہنے کی گنجائش ہوتی ہے۔
بورڈ بازار میں پرائیوٹ ہاسٹل کے مالک اعظم خان نے بتایا کہ پرائیوٹ ہاسٹلوں نے حکومت سے ایک بڑا بوجھ اپنے ذمے لیا ہے۔ پشاور صوبائی دارلحکومت اور تعلیمی اداروں کا بڑا مرکز ہونے کی وجہ سے صوبہ بھر کے طلباء یہاں پڑھنے اور ملازمت کرنے آتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہاسٹلز ہزاروں افراد کے لئے روزگار کے زرائع بھی نہیں لیکن اب ان ہاسٹلوں میں طلباء کی کمی وجہ سے روزگار دینا مشکل ہوگیا ہے اور مجبوراً ہاسٹلوں میں ملازمین کی تعداد کم کردی گئی ہے۔
پشاور کے اکثر ہاسٹل دوسرے علاقے لوگ چلاتے ہیں جو مالکان سے ایک لاکھ سے لیکر پانچ لاکھ روپے فی مہینہ کے کرایہ پر لیتے ہیں۔
نیاز علی نے بھی کورنا وبا کے بعد اپنے ہاسٹل کو بھیج دیا اور اب اپنے علاقے ہنگو میں کوئی دوسرا کاروبار شروع کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پشاور کے علاقہ ارباب روڈ پراس کا 35 کمروں پر مشتمل ایک بڑا ہاسٹل تھا جس میں سو سے زیادہ افراد کی رہنے کی گنجائش تھی اور وہ اپنے ہاسٹل سے ماہانہ ایک لاکھ روپے تک کما رہا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کا ہاسٹل بند ہوگیا۔ اس دوران بلوں کی ادائیگی اور مالک مکان کو آٹھ مہینوں کا کرایہ نہیں دیا تھا جو تقریباً دس لاکھ روپے سے زیادہ بنتا تھا اور اتنے زیادہ پیسے ادا کرنا ان کیلئے مشکل تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ہاسٹل کو بھیج کر قرض ادا کیا اور اب بے روزگار ہوگیا ہے۔