کابل: نازش ڈگری مکمل کئے بغیر تعلیم کو خیرآباد کہہ دیں گی
سلمی جہانگیر
افغانستان کے صوبے قندھار میں سکول جاتے ہوئے بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں 16 سے زیادہ بچے زخمی ہوئے، اس حملے کے بعد وہاں کے لوگوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چھوڑ دیا اور اس ڈر کی وجہ سے وہ بچے اب تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں کابل یونیورسٹی میں زیرتعلیم کابل کی رہائشی نازش نے بتایا کہ ملک کے اندر جنگی حالات ان کی تعلیم پر کیسے منفی طور پراثر انداز ہو رہے ہیں یہ پوری دنیا جانتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں ہونے والی جنگ کی وجہ سے وہ ابھی تک ڈگری نہیں لے سکیں اور حالیہ کشیدہ واقعات سے یہی لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر وہ اپنی ڈگری مکمل کئے بغیر تعلیم کو خیرباد کہہ دیں گی کیونکہ ان کے والدین ان کو مکتب جانے نہیں دیتے، ملک اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے اور اس سے پہلے بھی حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے۔
افغانستان میں موجود تقریباً 40 فیصد تعلیمی ادارے خستہ حال ہیں اور طلبہ اور طالبات ٹینٹ لگا کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس کشیدگی میں اب تعلیم کا یہ سلسلہ بھی جلد ہی ختم ہو جائے گا۔
نازش نے مزید بتایا کہ افغان دشمن لوگ نہیں چاہتے کہ یہاں تعلیم یافتہ لوگ پیدا ہوں اور خاص طور پر لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ننگرہار میں لڑکیوں کے سکول میں بم نصب کرنا اس کا بڑا ثبوت ہے، ”پوری دنیا مل کر افغانستان کے امن کے لئے کام کرے۔”
افغانستان کے ملکی حالات ایک بار پھر کشیدگی کا شکار ہوئے ہیں، امریکہ نے 11 ستمبر 2021 کو افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کا اعلان کیا ہے، ان 20 سالوں میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدوں کے باوجود افغانستان کے حالیہ حالات پرامن نہیں پرتشدد ہیں، طالبان ایک بار پھر اپنا اثر و رسوخ افغانستان کے مختلف صوبوں تک بڑھا رہا ہے اور ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے، کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے زیرتعلیم طلبہ و طالبات کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کی وجہ سے ان کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
افغانستان کے شہر کابل سے تعلق رکھنے والی نیاز بی بی کا کہنا ہے کہ جنگ کے اثرات ہمیشہ منفی ہوتے ہیں، اس کے برے اثرات صرف اس ملک پر نہیں جس میں جنگ ہوتی ہے بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان کی اس جنگ بندی سے افغانستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ طالبان بچوں کے سکولوں کو، ہسپتالوں کو اور یونیورسٹیوں کو جلا رہے ہیں۔
نیاز بی بی نے بتایا کہ افغانستان میں امن آنے کے بعد جو تھوڑی بہت ترقی ہوئی تھی وہ اس جنگ کی نذر ہو رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اگر اس کو نا روکا گیا تو ہماری آنے والی نسلیں تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ جائیں گی۔
ایک اندازے کے مطابق سوویت یونین سے جنگ کے دوران تقریباً 20 لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک جبکہ 70 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ افغانستان اور افغان شہریوں کے لیے تباہی اور تکلیف ہی لے کر آئی تھی۔
امریکی فوج کے بیس سال بعد افغانستان سے انخلاء اور طالبان کے دوبارہ بہت سے علاقوں پر قبضہ اور حکومت سے لڑی جانے والی جنگ کے بارے میں افغانستان کے صوبے وردک کے رہائشی طالبعلم امین وردک نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے پیدا ہونے والے کشیدہ حالات نے افغانستان میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کے ہر پہلو کو بری طرح متاثر کیا ہے اور جن علاقوں میں مسلسل جنگ ہو رہی ہے وہاں تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند ہیں۔
امین وردک نے مزید بتایا کہ وہ خود یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں لیکن فورسز اور طالبان کے درمیان لڑی جانے والی جنگ کی وجہ سے وہ اکثر گھر پر ہوتے ہیں جس سے ان کی تعلیم کا بہت حرج ہو رہا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے لئے فکرمند ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے حالات 1979 میں روس کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد سے کبھی مکمل طور پر پرامن نہیں رہے، 1994 میں طالبان نے حکومت سنبھالی لیکن طالبان حکومت کے دوران ملکی انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوا اور اب امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اپنا اثرو رسوخ حکومت تک بڑھا رہے ہیں۔