امن معاہدہ ختم کیا تو بڑی جنگ ہو گی، طالبان کی بائیڈن انتظامیہ کو دھمکی
طالبان نے اپنے تازہ حملوں میں کم از کم 21 افغان فوجیوں کو قتل کر دیا ہے، جب کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امریکی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات میں تعطل جاری ہے۔
اسی دوران طالبان نے انتباہ کیا ہے کہ اگر امریکہ گزشتہ سال 29فروری کو طے پانے والے امن معاہدے سے پیچھے ہٹا، تو اس سے افغان جنگ میں خطرناک تیزی آئے گی اور بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
یہ لڑائی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکا 2020 میں طالبان سے کئے گئے وعدے پر نظر ثانی کر رہا ہے، جس کے تحت امریکی اور دیگر اتحادی افواج کو اس سال مئی تک افغانستان سے انخلا کرنا ہے۔
ایک افغان سیکیورٹی افسر کا کہنا تھا کہ طالبان نے صوبہ قندوز کے خان آباد ضلع میں قائم ایک چوکی پر صبح سویرے حملہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
امن معاہدہ، جامعہ پشاور کے طلبہ کیا کہتے ہیں؟
امن معاہدے کے حوالے سے افغان خواتین کے تاثرات
"بدامنی سے تعلیم حاصل کرنے کا میرا خواب ادھورہ رہ گیا”
اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر سیکیورٹی افسر کا کہنا تھا کہ اس حملے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے 16 فوجی ہلاک ہوئے، جن میں ان کا کمانڈر بھی شامل تھا، جب کہ دو فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔
جمعرات کے روز ایک الگ حملے میں طالبان نے شمالی صوبے فریاب میں ایک چوکی پر چڑھائی کی جس میں پانچ فوجی ہلاک ہو گئے۔
صوبہ کے گورنر نے مقامی طلوع ٹیلی وژن چینل کو بتایا کہ طالبان چند فوجیوں یرغمال بنا کر بھی لے گئے۔
طالبان نے فوری طور پر ان حملوں پر کوئی بیان نہیں دیا، تاہم اْن کی جانب سے حالیہ دنوں میں حملوں میں شدت آئی ہے۔
اسی دوران طالبان نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ گزشتہ سال 29 فروری کو طے پانے والے امن معاہدے سے پیچھے ہٹے، تو اس سے افغان جنگ میں خطرناک تیزی آئے گی۔
واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان نے امن معاہدے پر دستخط کر کے تاریخ رقم کی تھی۔