متحدہ عرب امارات کا غیرملکیوں کو شہریت دینے کا اعلان، کیا آپ حاصل کرسکتے ہیں؟
متحدہ عرب امارات نے پہلی بار غیر ملکی افراد کے لیے اپنے ملک کی شہریت کا دروازہ کھول دیا ہے۔
یو اے ای نے یہ فیصلہ کورونا وبا کے دوران لاکھوں تارکین وطن کے ملک چھوڑنے اور خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت متاثر ہونے کی وجہ سے کیا ۔
دبئی کے امیر اور یو اے ای کے وزیراعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ سرمایہ کاروں، پروفیشنلز بشمول سائنسدان، ڈاکٹ، انجنیئر، فنکاروں، مصنفین اور ان کے خاندانوں سمیت خصوصی مہارت رکھنے والے افراد نئے قانون کے تحت شہریت کے لیے اہل ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے قوانین میں تبدیلی کی جارہی ہے اور اس کا مقصد معاشی ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے والے افراد کی توجہ حاصل کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
‘متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی غیر متعلقہ سرگرمیوں سے گریز کریں’
شیخ محمد بن راشد المکتوم نے ٹوئٹر پر بتایا کہ یو اے ای کابینہ، مقامی اماراتی عدالتیں و انتظامیہ کونسلز شہریت کے اہل افراد کو ہر کیٹیگری کے مطابق نامزد کریں، اس قانون کے تحت یو اے ای پاسپورٹ حاصل کرنے والوں کو اپنی موجودہ شہریت رکھنے کی بھی اجازت ہوگی۔
یو اے ای کی معیشت کا انحصار خام تیل کی برآمد پر ہے مگر کورونا وائرس کی وبا اور خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت متاثر ہوئی ہے اور لاکھوں تارکین وطن کو یو اے ای کو چھوڑنا پڑا۔
یو اے ای میں ابھی غیرملکی افراد کو شہریت نہیں دی جاتی بلکہ اقامے پر وہاں قیام اور روزگار فراہم کیا جاتا ہے، ہر 2 یا 3 سال بعد اس کی تجدید کرانا ہوتی ہے۔
مگر اب سرمایہ کار، ڈاکٹرن سائنسدان، باصلاحیت افراد، دانشور، فنکار اور ان کے خاندان یو اے ای کے ساتھ موجودہ شہریت بھی برقرار رکھ سکیں گے یعنی دوہری شہریت کی اجازت ہوگی، جس کی ابھی مشرق وسطیٰ میں اجازت نہیں۔
شہریت حاصل کرنے والے افراد کا فیصلہ یو اے ای کے حکام کریں گے۔
یو اے ای کی جانب سے حالیہ برسوں میں طویل المعیاد قیام کے قوانین کو بھی نرم کیا گیا ہے تاکہ بیرون ملک سے باصلاحیت افراد کو وہاں لایا جاسکے۔
اس مقصد کے لیے 2019 میں 10 برس کا گولڈن ویزا پروگرام متعارف کرایا گیا تھا، جس میں گزشتہ سال توسیع کرتے ہوئے 55 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے 5 سالہ ریٹائرمنٹ ویزا روگرام متعارف کرایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ یو اے ای میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے، جن کو اماراتی شہریت کی اس نئی پالیسی سے کتنا فیصلہ ہوگا، اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہی ہوگا۔