آرمینیا اور آذربائیجان جھڑپیں، ہلاکتیں 200 تک پہنچ گئیں
آرمینیا اور آذربائیجان نے عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کر دیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان چوتھے روز بھی جھڑپیں بدستور جاری رہیں، چار دنوں سے جاری والی جھڑپوں کے دوران اب تک 200 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں شہری بھی شامل ہیں، دونوں ملکوں کی جانب سے حریف ملک کو زیادہ نقصان پہنچانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں ملکوں نے لڑائی کے خاتمے کے لیے عالمی دباؤ کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جس کے بعد خطے کی دو بڑی طاقتوں روس اور ترکی کے اس تنازع میں کودنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، آذربائیجان کے صدر الہام الیو نے اعلان کیا ہے کہ ان کی فوج اس وقت تک لڑائی جاری رکھے گی جب تک آرمینیا کے فوجی مکمل طور پر متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ سے انخلاء نہیں کر لیتے۔
انہوں نے جھڑپ کے دوران ایک زخمی فوجی کی عیادت کے موقع پر کہا کہ اگر آرمینیا کی حکومت فوجی انخلاء کے مطالبے کو تسلیم کر لیتی ہے تو خونریزی ختم ہو جائے گی اور خطے میں امن قائم ہو گا۔
دوسری جانب آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشنیان کا کہنا ہے کہ دشمنی انتہا کو پہنچنے کے بعد مذاکرات کی بات کرنا مناسب نہیں۔
آرمینیا کے دارالحکومت یریوین کے فوجی بھرتی دفاتر کے سامنے درجنوں افراد جمع ہوئے جو آذربائیجان کے خلاف لڑائی کا حصہ بننے کے خواہش مند تھے۔
رپورٹس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں آرمینیا کے 104 فوجی اور 23 سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب آذربائیجان کی وزارتِ دفاع نے دعوی کیا ہے کہ کاراباخ میں 2300 علیحدگی پسند مارے گئے ہیں جب کہ 130 ٹینکوں، 200 آرٹلری یونٹس، 25 اینٹی ایئرکرافٹ یونٹس، اسلحے کے پانچ ڈیپو، 50 اینٹی ٹینک یونٹس اور 55 فوجی گاڑیاں تباہ ہو چکی ہیں۔
آذربائیجان کے مطابق آرمینیا کی فوج نے ان کے 29 ٹینک اور فوجی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ پر جھڑپیں ہو رہی ہیں، یہ علاقہ آذربائیجان کی حدود میں واقع ہے لیکن کا اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے جنہیں آرمینیا کی حکومت کا تعاون حاصل ہے۔
80 کی دہائی کے آخر میں سویت یونین کے خاتمے پر ناگورنو کاراباخ کی مقامی پارلیمنٹ نے اس علاقے کو آرمینیا کا حصہ بننے کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد نسلی فسادات شروع ہوئے اور آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان اس متنازع علاقے پر کئی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔
حالیہ جھڑپوں کے بعد گزشتہ روز کاراباخ کے علیحدگی پسند رہنما آرایک ہرتینیان نے کہا تھا کہ ہمیں طویل المدت جنگ کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے ادھر روس نے فریقین پر متعدد بار زور دیا ہے کہ وہ لڑائی ختم کریں، اس مقصد کے لیے ماسکو کے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے لیے میزبانی کی بھی پیشکش کی ہے۔
روسی وزیرِ خارجہ سرگوئے لاروف نے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کو فون کیا اور ان کی ملاقات کرانے کی پیشکش بھی کی تاہم کسی بھی ملک نے مذاکرات پر رضا مندی ظاہر نہیں کی۔