بین الاقوامیصحتعوام کی آواز

پاکستانی خواتین میں خون کی کمی صحت کے لیے سنگین خطرہ بننے لگی، ڈبلیو ایچ او

جنوبی ایشیا بشمول پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں میں خون کی کمی (انیمیا) کی بلند ترین شرح پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یونیسیف، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور سارک نے فوری اور مشترکہ اقدامات کی اپیل کی ہے۔ اگر اس حوالے سے اقدامات نہ کئے گئے تو 2030 تک مزید 1 کروڑ 80 لاکھ خواتین اور لڑکیاں اس خطرناک بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں، جو پہلے ہی 25 کروڑ 90 لاکھ افراد کو متاثر کر چکی ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے پہلی بار جنوبی ایشیا کے سات ممالک کی حکومتیں کولمبو، سری لنکا میں 9 تا 11 جولائی ایک اہم علاقائی کانفرنس میں جمع ہوئے۔ "نرشنگ ساؤتھ ایشیا: خواتین و لڑکیوں میں خون کی کمی” کے عنوان سے منعقدہ اس کانفرنس میں 100 سے زائد ماہرین، پالیسی سازوں اور صحت و ترقیاتی شعبوں کے رہنما شریک ہوئے۔

کانفرنس کے دوران "ساؤتھ ایشیا انیمیا اکیڈمک الائنس” کا بھی قیام عمل میں لایا گیا، جس کا مقصد سائنسی تحقیق کو فروغ دے کر طویل مدتی حل تلاش کرنا ہے۔

سری لنکا کی وزیراعظم ڈاکٹر ہارینی امرسوریا نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں میں خون کی کمی ایک سنگین عوامی مسئلہ ہے۔ ہم متاثرہ اضلاع میں غذائیت کے پروگرام تیز کر رہے ہیں اور ان کوششوں کو پورے ملک میں وسعت دیں گے۔

ماہرین کے مطابق انیمیا صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ عدم مساوات، ناقص غذائیت، غربت اور صحت کی سہولیات تک محدود رسائی کا اشارہ ہے۔ حاملہ خواتین میں یہ ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے خطرہ بنتی ہے، جبکہ عام خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم، روزگار اور گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔

پاکستان میں پیش رفت، مگر چیلنجز برقرار

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2011 سے 2018 کے درمیان خون کی کمی میں 14 فیصد کمی آئی ہے، جو 53 فیصد سے گھٹ کر 39 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس میں حکومت کے اقدامات جیسے "مدر اینڈ اڈولیسنٹ نیوٹریشن اسٹریٹیجی”، بی آئی ایس پی پروگرام کے تحت غذائیت سے متعلق سوشل پروٹیکشن اور حاملہ خواتین کے لیے مائیکرونیوٹرینٹ سپلیمنٹس کی فراہمی شامل ہے۔

سارک کے سیکرٹری جنرل محمد گولام سرور نے کہا کہ ہمارے نوجوان اور مائیں ہماری ترقی کے مرکز میں ہیں، ان کی صحت و تغذیہ میں سرمایہ کاری ہمارے مستقبل کی کامیابی کی ضمانت ہے۔

یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر سنجے وجے سیکرا نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں نصف سے زائد خواتین اور لڑکیاں انیمیا کا شکار ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صحت کا نظام ان کے لیے ناکام ہو چکا ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے، اب وقت ہے کہ حکومتیں اس پر کام کریں۔”

اسی حؤالے سے ڈبلیو ایچ او ساؤتھ ایسٹ ایشیا کی ریجنل ڈائریکٹر سائمہ وازے نے کہا انیمیا قابل علاج اور قابل تدارک مسئلہ ہے۔ یہ صرف صحت نہیں، بلکہ سماجی و معاشی مسئلہ بھی ہے۔

نیپال کی کامیابی مثالی

رپورٹ کے مطابق نیپال نے فرنٹ لائن ورکرز، صحت و غذائیت کے انضمام اور مساوی حکمت عملی پر سرمایہ کاری کر کے 2016 سے 2022 کے دوران انیمیا کی شرح 41 فیصد سے 34 فیصد تک کم کی۔ 2030 تک نیپال میں یہ شرح 27 فیصد تک گرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی امید افزا اقدامات

بھارت اور پاکستان میں مقامی سطح پر تربیت یافتہ ورکرز اور ڈیٹا بیسڈ پروگرامز کے باعث پیش رفت ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش سکولوں کے ذریعے غذائی خدمات فراہم کر رہا ہے جبکہ سری لنکا میں 25 سال سے کم عمر خواتین میں انیمیا کی شرح صرف 17 فیصد رہ گئی ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا کہ انیمیا جنوبی ایشیا کو سالانہ 32.5 ارب ڈالر کا نقصان پہنچاتا ہے۔ مگر صرف ماؤں میں انیمیا سے نمٹنے پر 1 ڈالر خرچ کیا جائے تو 9.5 ڈالر کا معاشی منافع حاصل ہوتا ہے۔

کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ حکومتیں قیادت کریں، مگر خاندان، کمیونٹیز، سکول اور صحت ورکرز بھی کردار ادا کریں۔ صحت مند خواتین اور لڑکیاں مضبوط معیشت، خوشحال خاندان اور مستحکم معاشرے کی بنیاد ہیں، جنہیں محفوظ اور طاقتور بنانے کے لیے فوری، مربوط اور پائیدار اقدامات ناگزیر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button