خیبر پختونخوا میں پیدائشی طور پر کم وزن بچوں کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ

سلمان یوسفزئی
خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں پیدائشی کم وزن بچوں کی شرح میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ محکمہ صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کئی اضلاع میں بچوں کا پیدائشی وزن معمول سے کم ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اپر کوہستان میں 718 پیدائشوں میں سے 98 بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوئے جس کی شرح 13.65 فیصد بنتی ہے۔ کولائی پالس میں 376 پیدائشوں میں سے 34 بچے کم وزن کے پیدا ہوئے، جہاں یہ شرح 9.04 فیصد رہی۔ اپر چترال میں 1212 بچوں میں سے 76 بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوئے یہ شرح 6.27 فیصد رہی۔
اعداد و شمار کے مطابق ہری پور میں 9845 پیدائشوں میں سے 275 بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوئے، جو 2.79 فیصد شرح ظاہر کرتا ہے۔ پشاور میں 15,831 پیدائشوں میں سے 135 بچے کم وزن کے پیدا ہوئے، جس کی شرح 0.85 فیصد رہی۔ سوات میں 33,066 بچوں میں سے 182 بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوئے یہاں شرح 0.55 فیصد رہی۔ مردان میں 14,924 پیدائشوں میں سے 20 بچے کم وزن کے پیدا ہوئے، جس کی شرح 0.13 فیصد رہی۔
مجموعی طور پر ان اضلاع میں رپورٹ ہونے والی پیدائش کی تعداد 76,972 رہی جن میں سے 820 بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوئے۔ یوں مجموعی طور پر کم وزن بچوں کی شرح 1.06 فیصد بنتی ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق اپر کوہستان میں سب سے زیادہ شرح 13.65 فیصد جبکہ ملاکنڈ اور مردان میں سب سے کم 0.13 فیصد کم وزن بچوں کی پیدائش ریکارڈ کی گئی۔
ماہرین کے مطابق بچوں کی کم وزن کے ساتھ پیدائش کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق دوران حمل ماں کی غذائی کمی، مناسب طبی معائنے کی عدم دستیابی، مختلف بیماریوں جیسے خون کی کمی (اینیمیا)، شوگر یا بلڈ پریشر کی بیماریاں، کم عمری میں شادی اور حمل کے دوران ذہنی دباؤ کم وزن بچوں کی پیدائش کے اہم عوامل ہیں۔
اس کے علاوہ غربت، طبی سہولیات تک محدود رسائی اور شعور کی کمی بھی ان مسائل میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران متوازن غذا، باقاعدہ طبی معائنہ اور صحت مند طرز زندگی اپنانے سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پیدائشی طور پر کم وزن بچوں کی شرح کم کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ حمل کے دوران خواتین کو متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کی جائے تاکہ بچے کی نشوونما درست انداز میں ہو سکے۔
اسی طرح ماں اور بچے کی صحت کی نگرانی کے لیے حمل کے ابتدائی مہینوں سے ہی باقاعدہ طبی معائنے کو یقینی بنایا جائے تاکہ کسی بھی پیچیدگی کو بروقت قابو میں لایا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہر حاملہ خاتون کو بنیادی طبی سہولت میسر ہو۔
ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے کیونکہ کم عمر ماؤں میں غذائی کمی اور پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو کم وزن بچوں کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔