صحت

ضلع باجوڑ بھی ایچ آئی وی ایڈز سے محفوظ نہیں رہا

 

شاہ خالد شاہ جی

گل آغا (فرضی نام) چند سال پہلے  بیرون ملک اور اندرونی ملک کے مختلف حصوں میں محنت مزدوری کے سلسلے میں جاتا رہتا تھا لیکن پچھلے تین سالوں سے وہ اپنے علاقے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں مزدوری کررہا ہے اور اپنے خاندان کی کفالت میں مصروف ہے۔ اُن کے بقول ان کو کئی عرصے سے متواتر بخار اور جسمانی کمزوری کی شکایت پیدا ہوئی تھی جوکہ مسلسل بڑھتا گیا اور آخر  کار اتنا کمزور ہوا کہ میں چلنے پھرنے سے قاصر رہا۔

مختلف قسم کا علاج کرایا لیکن کسی قسم کا افاقہ نہ ہوا تاہم جب علاج کی غرض سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خار باجوڑ لایا گیا تو  وہاں پر ڈاکٹر نے مختلف بیماریوں کے ٹیسٹ کروائے جس کے بعد پتہ چلا کہ اُن کو ایڈز کی بیماری لاحق ہوئی ہے۔ اس بیماری کے بارے میں انہیں کچھ معلوم نہیں کہ یہ کونسی بیماری ہے تاہم  ڈاکٹر نے انکو مفت ادویات دینے کے ساتھ احتیاط  کرنے کامشورہ دیا جس پر عمل کرکے اب وہ کام کاج کے قابل ہے اور عام لوگوں کی طرح کام پر جاتا ہے۔

گل آغا بھی باجوڑ کے ان  170 رجسٹرڈ مریضوں کے فہرست میں شامل ہے جو ایڈز سے متاثر ہوچکے ہیں۔ایڈز سے متاثر ہونے کے بارے میں آغا نے کہا کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ اُن کو یہ بیماری کیسے لاحق ہوئی لیکن وہ باقاعدگی سے باجوڑ میں ایڈز تشخص، مفت ادویات اور ذہنی نشونما مہیا کرنے کے لے قائم مرکز جاتا ہے اور وہاں سے ان کا علاج ہو رہا ہے۔

 

 کیا ایڈز صرف غیر فطری جنسی تعلقات ہی سے پھیلتا ہے

ہمارے معاشرے میں عام تاثر یہ ہے کہ ایڈز کی بیماری صرف غیر فطری جنسی تعلقات سے پھیلتی ہے۔ اس حوالے سے ضلع باجوڑ کے ٹی بی و  ایڈز  کنٹرول پروگرام  کے سربراہ  ڈاکٹر اجمل خان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر بلکل غلط ہے کیونکہ ایڈز کی بیماری صرف غیر مرد یا عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے سے نہیں لگتا بلکہ یہ دوسرے عام بیماریوں کی طرح ایک انسان سے دوسرے انسان کو مختلف طریقوں سے منتقل ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ علاج معالجے میں استعمال شدہ آلات ایک سے زیادہ مریضوں کے استعمال میں لانا، حجامت کے لئے نئے بلیڈ کا استعمال نہ کرنا، غیر محفوظ اور غیر فطری جنسی تعلقات، اور ایک عام مریض کو ایڈز سے متاثر فرد کے خون کے انتقال سے بھی بیماری ایک صحت مند انسان کو متاثر کرسکتی ہے۔ ان کے بقول ٹی بی اور دوسری بیماریاں جن میں انسان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے تو ان مریضوں پر ایڈز کا وائرس  آسانی سے حملہ کرسکتا ہے۔ یعنی یہ ایک موقع پرست  وائرس ہے جب اس کو موقع ملتا ہے تو کمزور مدافعت والے جسم پر حملہ کرتا ہے۔ اس لئے ہم ایسے مریضوں کے ایچ آئی وی ایڈز کے ٹیسٹ بھی کراتے ہیں جن کی قوت مدافعت کمرزو ہوتی ہے۔

باجوڑ  کے 45 سالہ گل روش خان (فرضی نام) میں بھی تین سال پہلے ایڈز کی تشخیص ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں کا استعمال مختلف طریقوں سے کرتا تھا جس میں انجکشن کے ذریعے  نشہ کا استعمال بھی شامل تھا۔ اُن کے بقول ایک انجکشن کو کئی لوگ نشہ کے وقت استعمال کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان میں مسلسل بخار، سر میں درد اور جسم میں کمزوری کا احساس بڑھ گیا تھا  لیکن جب ڈاکٹر نے مختلف بیماریوں کے ٹیسٹ کرائے تو پتہ چلا کہ وہ ایڈز کی بیماری سے متاثر ہوا ہے۔ اب نشے کو چھوڑ کر دوائی کا باقاعدگی سے استعمال کررہا ہے اور اللہ  تعالی کے فضل سے ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزار رہا ہے اور اپنے خاندان کی کفالت کررہا ہے۔

پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد

ڈاکٹر اجمل کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق  موجودہ وقت میں پاکسان میں رجسٹرڈ ایڈز مریضوں کی تعداد    160000 ہے جسمیں صوبہ خیبر پختونخوا میں 15000ہزار، پنجاب میں 75000 ہزار، سندھ میں 60000 ہزار اور بلوچستان میں 5000 ہزار ہے۔ ان میں کچھ ایسے مریض بھی ہے جن میں ایڈز کے واضح یعنی ایکٹیو علامات نہیں ہی لیکن پھر بھی وہ باقاعدگی سے علاج لے رہے ہیں۔

ڈاکٹر اجمل نے بتایا کہ باجوڑ کے  170 رجسٹرڈ  ایڈز کے مریضوں میں کچھ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں جن کو اب  ترجیحی بنیادوں  پر باجوڑ ریفر کیا جارہا ہے تاکہ ان کا اپنی آبائی علاقوں میں علاج  ہوسکیں اور ان کو علاج میں آسانی ہو۔

صوبے بھر میں تیراہ ایڈز کنٹرول کے مراکز کام کررہے ہیں جن میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور،حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، ڈسٹرکٹ ہسپتال کوہاٹ، تدرسی ہسپتال بنوں، ڈسٹرکٹ ہسپتال بٹ خیلہ،مفتی محمود میموریل ہسپتال ڈیر ہ اسماعیل خان، ایوب تدرسی ہسپتال آبیٹ آباد، سیدو تدرسی ہسپتال سوات، باچا خان میڈیکل کمپلکس صوابی،ڈسٹرکٹ ہسپتال مردان اور تین مراکز ضم قبائلی اضلاع باجوڑ، کرم اور شمالی وزیرستان میں ہیں جہاں پر مفت ٹیسٹ، آگاہی اور ادویات مہیا کی جاتی ہے۔

  کیا ایڈز لاعلاج ہے؟

ڈاکٹر اجمل کا کہنا ہے کہ کسی بھی بیماری سے خوف زدہ نہیں ہوناچاہیے اور ایچ آئی وی ایڈز بھی اُن بیماریوں میں شامل ہیں جس کے حوالے سے ماضی میں مختلف قسم کے پراپیگنڈے کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے مریض یا متاثر فرد خوف کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ سب سے پہلے احتیاط ضروری ہے تاکہ کوئی اس بیماری سے متاثر نہ ہوسکے لیکن آگر خدانخواستہ کسی کو یہ مسئلہ ہوجاتاہے تواُس کو چھپانے کی بجائے ضلع بھر میں قائم مراکز کے ساتھ اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرکے باقاعدگی سے وہاں سے مفت معائنہ اور ادویات حاصل کرکے عام لوگوں کی طرح زندگی گزارسکتا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ایڈز سے متاثر افراد کی بڑی تعداد اپنا کام کاج کرتے ہیں اور اپنی سماجی زندگی سکون کے ساتھ گزارتے ہیں لیکن ادویات کے استعمال میں غفلت کی بالکل بھی گنجائش موجود نہیں۔

ان کے بقول ایڈز شوگر کی طرح ایک بیماری ہے جو ایک بار کسی کو لاحق ہو تو ختم نہیں ہوسکتی لیکن اس کے علاج اور ادویات باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے انسان نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔

باجوڑ میں ایڈز کی آگاہی کے لئے اقدامات

ڈاکٹر اجمل کے مطابق باجوڑ میں ایڈز کے حوالے سے وہ لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لئے اگاہی سمینارز اور علاقوں کی سطح پر سیشنز کراتے ہیں جس میں علاقے کی مذہبی ،سیاسی، سماجی اور قبائلی عمائدین کو مدعو کرتے ہیں  تاکہ لوگوں میں اس بیماری سے متعلق جو غلط فہمی ہے وہ دور ہو جو جائے اور وہ علاج کیطرف آجائے۔ اس کے علاوہ  ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز کے عالمی دن کے موقع پر بھی آگاہی واک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ باجوڑ کے تمام ٹائپ ڈی ہسپتالوں میں  مراکز قائم کئے ہیں تاکہ وہاں پر  بھی مریضوں کو  باسانی مفت  علاج دستیاب ہو سکیں۔

ڈاکٹر اجمل نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ صحت کے عملے سے تعاون کریں تاکہ اس موذی مرض کو  پھیلنے سے روکا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس بیماری کو لوگ اسی طرح چھپاتے رہیں گے اور بروقت علاج کے لئے نہیں آئیں گے تو خدشہ ہے کہ یہ بیماری باجوڑ میں  تشویشناک حدتک پھیلے گی۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button