صحت

باجوڑ کے مختلف علاقوں میں باؤلے کتوں کا راج، ذمہ دار کون؟

 

محمد بلال یاسر

"میرے بچے کو باؤلے کتے نے کاٹا تو میں زخمی بچے کو لیکر پہلے قریب میں واقع کیٹگری ڈی ہسپتال لرخلوزو ماموند لیکر گیا۔ وہاں ویکسین دستیاب نہ تھی بعد ازاں ہیڈ کواٹر ہسپتال خار لیکر گیا وہاں ہسپتال ایم ایس کیلئے بڑی سفارش بھی لیکر گیا مگر تمام کوششیں بے سود رہیں۔ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں بھی درکار ویکسین دستیاب نہ تھی۔ مجبوراً مہنگی ویکسین خرید کر بچے کا علاج شروع کرادیا”

یہ الفاظ 24 سالہ حفیظ اللہ کے ہے جو تحصیل ماموند کے گنجان آباد علاقے تنی كا رہائشی ہے۔ پیشے كے لحاظ سے وہ ایک موچی ہے۔ حفیظ اللہ كہتے ہیں كہ اس نے اپنے بچے کے علاج کیلئے 1500 روپے کا ایک ایک انجکشن خریدا ، بچے کو کل پانچ انجکشن لگے۔ یہ صرف انکے ساتھ نہیں ہوا بلکہ روزانہ کی بنیاد پر سبھی لوگوں کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔

قبائلی ضلع باجوڑ کے بڑے تجارتی مراکز ، دیہاتوں اور گلیوں میں پھرنے والے آوارہ كتوں كی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چكا ہے۔ یہ آوارہ كتے نہ صرف شہریوں كے لیے مستقل خطرہ بن چكے ہیں بلكہ ضلعی انتظامیہ کیلئے بھی پریشانی کا باعث ہیں۔ آوارہ کتوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہیں۔

یاد رہے لاہور ہائیکورٹ نے آوارہ كتوں كو زہر دے كر یا گولی مار کر ہلاک کرنے پر مکمل پابندی لگا ركھی ہے۔

28 مارچ 2022 کو خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے تمام ڈپٹی کمشنرز ، ٹی ایم اوز کو تحریری نوٹس بھیجا تھا کہ آوارہ کتوں کو زہر دیکر تلف کرنے کی بجائے ان کی نس بندی کے طریقہ کار کو فوری طور پر اپنایا جائے۔ اس سے ان كی افزائش نسل نہیں ہو پائے گی۔

لیكن ان محكموں کے درمیان عدم تعاون اور اور ذمہ داری کے واضع تعین نہ ہونے کی وجہ سے اس پالیسی پر نہ صرف عمل درآمد نہیں ہوسكا بلكہ آوارہ کتوں کی تعداد، کتے کاٹنے کے واقعات، باؤلے پن کے پازئیٹو کیسز کی تعداد اور ویکسین دی جآنے والے کتوں کی تعداد کا ریکارڈ کسی محکمے کے پاس موجود نہیں ہے۔

باجوڑ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر وزیر خان صافی نے بتایا کہ انہوں نے ہسپتال کیلئے اینٹی ریبیز ویکسین کے فراہمی کیلئے کئی بار اعلیٰ حکام کو تحریری درخواست دی ہے۔ ان کے مطابق جنوری 2022ء سے دسمبر 2023ء تک ضلع بھر میں كتے كے كاٹنے كے كل 850 واقعات درج ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کو قریبی کلینکس سے ویکسین لگواتے ہیں جس کے وجہ سے مکمل تعداد درج نہیں ہو پاتی۔

ڈائریکٹر لائیو سٹاک باجوڑ ڈاکٹر ضیاء الدین نے بتایا كہ آوارہ کتوں کو پکڑنے اور نس بندی کے بعد چھوڑنے کی ذمہ داری ٹی ایم اے کی ہے۔ اور کتوں کی نس بندی لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ کی ہے مگر ان کتوں کی نس بندی کیلئے درکار سامان سرجیکل کٹ ، انستیزیا ، گلوز ، بلیڈ ، انٹی ریبز ویکسین ، ڈریپ وغیرہ کوئی بھی سہولت ابتک فراہم نہیں کیے گئے۔ اس کیلئے انہوں نے کئی بار تحریری درخواستیں متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کیلئے باقاعدہ ایک وارڈ کی بھی ضرورت ہے جس کا تاحال قیام عمل میں نہیں لایا جاسکا۔

ذمہ دار محکمہ جات کی عدم دلچسپی اور ذمہ داریوں کا درست تعین نہ ہونے کی وجہ سے ضلع بھر میں کتوں کی تعداد اور ان کے حملے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔

مقامی سیاسی و قبائلی رہنما ملک سلطان روم کے مطابق آوارہ کتوں کے حملوں اور ان کی غیر معمولی تعداد سے متعلق شکایت درج کرانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ایک ہیلپ لائن متعارف کروانی چاہیے۔ انہوں نے مزید كہا كہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ اس معاملے پر غیر سنجیدہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹی این وی آر پالیسی قابلِ عمل ہے مگر مختلف محکمے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار نہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہم بارہا متعلقہ حکام تک اپنی شکایت ہر طریقے سے پہنچا چکے ہیں مگر عملدرآمد کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button