کیا ہائیڈروسیفالس بیماری کا علاج ممکن ہے؟
نادیہ
شمسا بی بی کی بیٹی طائرہ ہائیڈروسیفالس کی مریضہ ہے۔ اس کا علم اس کو طائرہ کی پیدائش کے چار ماہ بعد ہوا جبکہ طائرہ کو یہ مرض پیدائشی تھا۔ شمسا بی بی کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع وزیر آباد سے ہے۔ شمسا بی بی کا شوہر اسلم شادی کے بعد مالی طور پر مضبوط نہیں تھا جس کی وجہ سے شمسا بی بی کو اپنے گھر کی کفالت خود کرنی پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ حاملہ ہوئی تب گھر کے معاشی حالات بہت خراب تھے۔ گھر میں مسلسل لڑائی جھگڑا ہوتا تھا۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ دن رات کپڑوں کی سلائی کر کے گھر کا نظام چلاتی تھی جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی۔ اس ذہنی دباؤ کا اثر اس کی نومولود بیٹی طاہرہ پر ہوا۔ شمسا کہتی ہیں کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے اس کی بیٹی ہائیڈروسیفالس میں مبتلا ہو گئی۔ معاشی تنگدستی کے باوجود ننھی جان طاہرہ کو لے کر گورنمنٹ سول ہسپتال وزیر آباد میں گئیں وہاں سے لاہور چلڈرن ہسپتال بھیج دیا گیا۔
ڈاکٹرز کے مطابق اس بیماری کے مریض کا سر غیر معمولی طور پر سائز میں بڑا ہوجاتا ہے۔ مریض کی شکل میں واضح فرق آجاتا ہے اور اس کو دورے پڑتے ہیں۔
شمسا بی بی کہتی ہیں کہ ہارڈو ہائیڈروسیفالس کی وجہ سے بیٹی سننے بولنے اور چلنے والی نعمتوں سے محروم ہے معاشی تنگدستی کے باوجود شما بی بی اپنے لخت جگر کو لاہور علاج کے لیے لے کر جاتی رہی۔ مشکل حالات کے ہوتے ہوئے کئی سال تک طائرہ کاعلاج جاری رہا۔ وہاں ہسپتال میں انہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ علاج کے طائرہ 14 سالہ طائرہ اب بھی سننے، بولنے اور چلنے سے محروم ہیں۔
طیب کرائے کے گھر میں ضلع وزیر آباد میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق منڈی بہاوالدین سے ہے۔ طیب ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ اس کے مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی ذہنی دباؤ کا شکار رہتی تھی۔ ان کے بیٹے کو یہ بیماری پیدائشی تھی۔ پر ان کا اس بات کا علم ان کی پیدائش کے 15 دن بعد ہوا۔ ان کے بیٹے کا سر جب بڑھنا شروع ہوا تو ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے سر میں پانی ہے اور ڈاکٹر نے ان کو لاہور میموریل چلڈرن ہسپتال بھجوا دیا۔ ان کے بیٹے کا سر نرم جلی کی طرح تھا۔ جب وہ چار ماہ کا تھا تو اس کا آپریشن کروا دیا گیا۔ آپریشن سے وہ اس بیماری سے بہتر ہونا شروع ہو گیا ہے اب وہ نو ماہ کا ہے لیکن اب وہ اس کی حالت پہلے سے تھوڑی سی بہتر ہے۔
فائزہ ایک چائلڈ سپیشلسٹ ہیں۔ انہوں نے تین سال مموریل ہسپتال وزیر آباد میں کیا۔ اب وہ عمران ادریس ہسپتال سیالکوٹ میں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق ہائیڈروسیفالس کی بیماری بچوں کی پیدائش کے دوران ہی انہیں ہو جاتی ہے۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے اس میں خواتین کا ذہنی دباؤ بھی شامل ہے۔ اس بیماری کے دوران بچے کا دماغ مکمل طور پر نشونما نہیں کر پاتا جس کی وجہ سے بچہ ذہنی معذور ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جو مائیں حاملہ ہوتی ہیں اگر وہ حمل کے دوران الٹرا ساؤنڈ کروالیں تو اس بیماری کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے مطابق پاکستان میں جو لوگ اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں وہ الٹرا ساؤنڈ نہیں کرواتے جس کی وجہ سے ان کے بچوں کو اس بیماری کا ساری زندگی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر فائزہ کے مطابق جب کسی بچے میں اس بیماری کا پتہ چلتا ہے تو ان کی مائیں فورا ا بچہ ضائع کروا لیتی ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق ایسا بچہ نہ صرف والدین پر بوجھ ہوتا ہے بلکہ وہ معاشرے پر بھی بوجھ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فائزہ کے مطابق ایسے بچے کا علاج وزیراباد سیالکوٹ میں نہیں کیا جاتا ان کو لاہور چلڈرن ہسپتال بھجوا دیا جاتا ہے جہاں پر ان کے دماغ میں شنٹ ڈلوایا جاتا ہے۔ شنٹ ڈلوانے کے باوجود وہ بچہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو پاتا۔ ڈاکٹر فائزہ کے مطابق ہائیڈروسیفالس کی شرح بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ ماں کا ذہنی ڈپریشن لینا ہے۔
صوبیہ بی بی کہتی ہیں کہ جب وہ بھی حملہ ہوئی تو گھریلو جھگڑوں اور مار سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی۔ صوبیہ کا تعلق راہ والی کینٹ سے ہے۔ اس کے تین بیٹے ہیں سب سے چھوٹے بیٹے حمزہ کی پیدائش سے پہلے اس کے شوہر ثقلین نے اسے گھر سے نکال دیا۔ حمزہ کی پیدائش کے وقت ڈاکٹروں نے بتایا حمزہ ہائیڈروسیفالس کا مریض ہے۔ صوبیہ بہت روئی جب ڈاکٹر نے اسے اس بیماری کا بتایا وہ کہتی ہیں کہ وہ حمزہ کو لے کر بہت سے نیشنل ہسپتالوں میں گئی۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی صوبیہ کہ خاوند نے طلاق دے دی اور کہا یہ بچہ تمہارے گناہوں کی سزا ہے۔ آج حمزہ کو چارپائی پر لاچار دیکھتے ہوئے 14 سال ہو گئے ہیں۔ ہزاروں کوششوں کے باوجود آج بھی حمزہ صحت یاب نہیں ہو سکا وہ کہتی ہیں آج بھی حمزہ کا علاج کروا رہی ہوں۔
اسسٹنٹ سپیشلسٹ افتخار احمد کہتے ہیں حاملہ ماؤں کے ذہنی دباؤ کی وجہ سے جو بیماریاں بچوں میں آتی ہیں ان کا علاج مشکل ہے جن میں سے ایک بیماری ہائیڈروسیفالس بھی ہے۔ اس بیماری میں بچے کی نیند کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے ان کو جھٹکے آتے ہیں ان بچوں کو خوراک ضم نہیں ہوتی اور ان کے رویے میں غصہ اور بے چینی بھی شامل ہوتی ہے۔
سول سرکاری ہسپتال میں موجود سٹاف ممبر شمسہ کہتی ہیں سول ہسپتال میں ہائیڈروسیفالس کے مریض چیک اپ کے لیے بہت زیادہ آتے ہے ان کے مطابق یہاں پر ہائیڈروسیفالس کا علاج ممکن نہیں ہے اس لیے یہاں پر ہائیڈروسیفالس کے مریض داخل نہیں کیے جاتے۔ ان کے مطابق ہائیڈروسیفالس کا مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور یہ ماں کے ذہنی دباؤ کی ایک وجہ ہے۔ سٹاف ممبر شمسہ وہاں پر کافی سالوں سے کام کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق یہاں پر مریضوں میں زیادہ تر دو سے چھ سال کی عمر تک کے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے نرسری میں صرف چند بچے رکھے جاتے ہیں۔ نرسری والے بچوں کو بھی ایک دن کے بعد فارغ کر دیا جاتا ہے یہاں پر وینٹیلیٹر اور دیگر مشینری کی کمی کی وجہ سے صرف ایک یا دو بچوں کو نرسری میں رکھا جاتا ہے۔ سول ہسپتال وزیر آباد میں بچوں کے ریکارڈ کے مطابق %50 مریض بخار کے بیماری کے ہیں 30 % مریض ہائڈرو سیفولس کے مریض ہیں 20 % مریض نمونیا کے ہیں۔
ڈاکٹر وجیہہ لاہور چلڈرن ہسپتال میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ بچوں سے متعلق تمام بیماریوں کا علاج کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ہائیڈروسیفالس کا مسئلہ ماں کے ذہنی دباؤ کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ جب مائیں بچے کی پیدائش کے دوران بہت زیادہ ذہنی دباؤ لیتی ہیں تو بچے کا دماغ مکمل طور پر نشوونما نہیں کر پاتا۔ کچھ بچوں میں ہائیڈروسیفالس پیدائشی ہوتا ہے اور کچھ بچوں میں پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ہوتا ہے۔ جن بچوں کے اندر ہائیڈروسیفالس پیدائش کے بعد ہوتا ہے ان بچوں کو پہلے جھٹکے لگتے ہیں یہ جھٹکے ماں کے ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔