صحت

"بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی تو معاشرتی روئیوں کی وجہ سے اس کو چھپایا”

ایمن زیب

"جب مجھے بریسٹ کینسر ہوا تو شرمندگی کی وجہ سے چھپ رہی کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس مرض پر بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن جب میری تکلیف حد سے زیادہ بڑھ گئی تو میں نے مجبوراً ڈاکٹر سے رجوع کر لیا اور ایک سال علاج کے بعد اب صحتیاب محسوس کر رہی ہوں”

یہ کہنا ہے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی حمیدہ کا۔ حمیدہ کا کہنا ہے کہ انکو 47 سال کی عمر میں کینسر کی تشخیص ہوئی لیکن تب انہوں نے اس کا کسی سے ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ یہ بتانے سے کترا رہی تھی۔ حمیدہ کا کہنا تھا کہ جب تکلیف حد سے زیادہ بڑھ گئی تو مجبوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا اور پھر ایک سال علاج اور سرجری کروانے کے بعد اب صحتیاب محسوس کر رہی ہیں۔

پاکستان سمیت پوری دنیا میں اکتوبر کا مہینہ بریسٹ کینسر کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس مہینے میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی جنرل سرجن ڈاکٹر کرن نے بتایا کہ بریسٹ کینسر چھاتی کا کینسر ہے جو کہ مرد اور خواتین دونوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کا شکار زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔

کیا بریسٹ کینسر کا علاج ممکن ہے؟

ڈاکٹر کرن نے بتایا کہ جب بریسٹ کینسر کسی مریض کو ہوتا ہے، تو پہلے تو مریض کو پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ میں اس بیماری سے گزر رہا ہوں یا رہی ہوں۔ بریسٹ کینسر کے چار سٹیجز ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مریض پہلے سٹیج میں آتے ہی نہیں ہے۔ زیادہ تر جو مریض ہمارے پاس آتے ہیں وہ ایڈوانس کیس میں آتے ہیں یعنی 4 سٹیج میں آتے ہیں جس میں مریض تقریباً ختم ہوچکا ہوتا ہے، پھر اگر اس کی ٹریٹمنٹ کر بھی لے تو اتنا اس پر اثر نہیں ہوتا ہے اور اس کا مکمل علاج نہیں ہوتا۔

ہمیں پتہ ایسے چلے گا کہ اگر کسی کو بھی چھاتی میں لمف محسوس ہو یا گٹلی محسوس ہو رہی ہو یا اس کی سکن کا کلر چینج ہوجائے تو وہ فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرے۔
پھر علاج کینسر کے سٹیجز پر ہوتا ہے کہ مریض کس سٹیج میں آیا ہے۔ اگر پہلے سٹیج میں مریض ہمارے پاس آتا ہے تو اس کا الگ معائنہ اور علاج ہوتا ہے اور اگر ایڈوانس سٹیج میں آئے تو پھر مریض سرجری کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتا۔ کینسر کو روکنے کے لیے کیموتھراپی کی جاتی ہے لیکن بعد میں سرجری کرنا واحد راستہ ہوتا ہے۔

ارلی ڈیٹیکشن یہ ہے کہ اگر کسی بھی مرد یا عورت کو پتہ چل جائے تو پہلے یہ بریسٹ کے کسی خاص جگہ میں ہوتا ہے تو پھر اسی جگہ کی سرجری کی جاتی ہے اور کینسر کی گٹلی کو ختم کر دیا جاتا ہے اور اگر وقت پر پتہ نہ چلے تو کینسر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے اس میں بریسٹ کو تو ریموو کر دیتے ہیں لیکن پورے جسم سے اس کو ہٹانا مشکل ہوجاتا ہے اور مرض لاعلاج ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر کرن بتایا کہ پاکستان میں نوے فیصد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور ہر سال اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ہر سال اس سے چالیس فیصد مریض مرجاتے ہیں۔
سب سے پہلے جب مریض کو پتہ چلے کہ اس کی چھاتی کا رنگ بدل گیا ہے یا درد محسوس ہو تو مریض کو چاہیئے کہ وہ اپنا معائنہ کسی بھی جنرل سرجن سے کروائے۔ اس میں اکثر درد ہوتا ہی نہیں ہے۔ پہلے مریض اپنی پوری ہسٹری دے گا اور ڈاکٹر اس کی ایگزامنیشن کرے گا اور اس کے مطابق علاج کرے گا۔

علاج سٹیجز کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کا تعلق عمر سے ہے کیونکہ سکریننگ عمر کے حساب سے کی جاتی ہے۔ اگر بیس سال سے کم عمر کا مریض ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ ہر مہینہ اپنا معائنہ کروائے اور اس کو طریقہ سکھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا معائنہ خود بھی کرے۔ اگر بیس سے پینتیس سال کی عمر کا مریض ہو تو وہ تین ماہ بعد اپنا معائنہ کروائیں اور اگر چالیس سال سے زیادہ عمر ہو تو وہ سال میں ایک مرتبہ اپنا معائنہ کروائے۔ مختلف قسم کے مریض ہوتے ہیں جس میں ایک وہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے خاندان میں کسی کو بھی یہ کینسر ہو تو اس کے لیے الگ سکریننگ ہوتی ہے اور اس کے لیے ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس کو میموگرام کہا جاتا ہے تاکہ بروقت پتہ چلے۔

ڈاکٹر کرن نے خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین جن کو اس کے بارے میں بالکل معلومات نہیں ہے اگر ان کو چھاتی میں گٹلی محسوس ہو تو وہ جلد اپنا معائنہ کروائیں۔ اس کے علاوہ بغل میں لمف نوڈز ہوتے ہیں اگر وہ سائز میں بڑے ہوجاتے ہیں یا اگر بریسٹ کا رنگ تبدیل ہو جائے تو اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور بغیر شرم کیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ اس کینسر سے بچا جاسکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button