صحت

دواسازوں کا عالمی دن: ‘ڈگری کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں کوئی نوکری نہیں ہے’

ریحان محمد

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج عالمی فارماسیسٹ ( دوا ساز) دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد صحت کے شعبے میں دوا ساز کے کام کو سراہنا ہے۔ اس سال یہ دن ‘ فارماسیسٹ صحت کو مضبوط بناتا ہے’ کے نام سے منایا جارہا ہے۔

اس حوالے سے پشاور نشتر ہال میں ینگ فارماسیسٹ کمیونٹی نے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں صوبے کے تمام یونیورسٹیوں کے شعبہ فارمیسی کے اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔ یونیورسٹیوں کے طلبہ نے فارمیسی کے حوالے سے نمائش کے لئے سٹال بھی لگائے تھے۔

اس موقع پر ینگ فارماسیسٹ کے ممبر رئیس خان کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 600 افراد مختلف جامعات سے فارمیسی کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ ان افراد میں خیبر پختونخوا کے 17 یونیورسٹیوں سے سالانہ 23 سو کے قریب فارماسیسٹ فارغ ہوتے ہیں جبکہ اس وقت ملک میں 15 ہزار اور خیبر پختونخوا میں 5 ہزار رجسٹرڈ فارسیسٹ موجود ہیں۔

فارماسیسٹ اسفندیار گزشتہ سال پشاور یونیورسٹی سے فارغ ہوئے ہیں۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج فارماسیسٹ کا عالمی دن ایسے موقع پر منایا جارہا ہے جہاں ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں ڈگری لینے والے دوا ساز بے روزگار ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بھی شوق سے فارمیسی میں داخلہ لیا تھا لیکن ڈگری مکمل کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان میں ان کے لیے نوکری نہیں ہے اس لیے ایک سال گزرنے کے بعد بھی وہ بے روزگار بیٹھے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں فارماسیسٹ کی نوکری نہ ہونے اور دیگر مسائل کے باعث آنے والے وقت میں بہت کم لوگ فارمیسی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیں گے۔

ینگ فارمسیسٹ کمیونٹی پاکستان کے صدر ڈاکٹر وقاص کا کہنا ہے کہ فارماسیسٹ کا صحت کے شعبے میں بہت اہم کردار ہے کیونکہ کوئی بھی دوا فارماسیسٹ کی تصدیق کے بغیر مریض کو نہیں دی جاتی اور جو دوا ڈاکٹر مریض کو تجویز کرتے ہیں وہ پہلے پانچ چھ فارماسیسٹ سے تصدیق کے بعد مارکیٹ میں بھیجی جاتی ہے۔

ان کے بقول فارماسیسٹ تین اہم جہگوں پر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں جن میں ایک کمیونٹی فارماسیسٹ ہوتا ہے۔ یہ فارماسیسٹ پرائیوٹ فارمیسی میں ادویات بھیجتے ہیں جبکہ اس وقت خیبر پختونخوا میں 20 فیصد پرائیوٹ فارمیسیوں میں مختلف فارماسیسٹ موجود ہیں۔

اس طرح ہسپتال میں موجود کلینکل فارماسیسٹ فزیشن کے بعد دوا تجویز کرتا ہے۔ ان کے بقول ڈبلیو ایچ او سٹینڈرڈ کے مطابق ہسپتال میں 20 بیڈز کے مریضوں کو دوا کی تجویز کے لیے ایک فارماسیسٹ کا ہونا لازمی ہے لیکن پاکستان میں ایک فارماسیسٹ سو بیڈز کے لیے رکھا جاتا ہے، جبکہ انڈسٹری فارماسیسٹ میں ایک دوا ساز تحقیق کرکے مختلف امراض کے لیے ادویات بناتے ہیں۔

ادھر ماہرین کے مطابق جس طرح ایک ماہر ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرتا ہے، اسی طرح ایک ماہر دواساز بھی مریض کے لیے دوا تیار کرتا ہے۔ دوا کی تیاری کے لیے اجزاء کا انتخاب، خواص و اثرات، ان کی تحقیق، مرکب دوا کی صورت میں مختلف اجزا ء کا تناسب، مرض کی نوعیت کے پیش نظر دواؤں کی دستیابی، دواؤں کی تقسیم، ہسپتالوں، ذخیرہ گاہوں میں انہیں ذخیرہ کرنے کا علم یہ تمام طب کے منفرد ترین شعبے فارمیسی کے زمرے میں آتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button