صحت

ہسپتال میں حاملہ خواتین کے لیے جگہ کم، ‘ایک بیڈ پر دو خواتین کو لٹایا جاتا ہے’

نثار بیٹنی

جنوبی اضلاع میں خصوصی حیثیت رکھنے والے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے اکلوتے ڈسٹرکٹ زنانہ ہسپتال میں اس وقت سہولیات کا شدید ترین فقدان چل رہا ہے، نرسری وارڈ میں بچوں اور خواتین کا برا حال ہے جبکہ زچہ کے ساتھ آنے والی خواتین کے بیٹھنے کے لیے کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔

اپنی حاملہ بہو کے ساتھ ڈسٹرکٹ زنانہ ہسپتال آنے والی خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک بیڈ پر دو دو خواتین اپنے نوزائیدہ بچوں کے ساتھ انتہائی تکلیف، کمزوری اور درد کی حالت میں لیٹی ہوتی ہیں، مجھے دو دن اپنے بہو کے ساتھ زنانہ ہسپتال کے زچہ بچہ (نرسری) وارڈ میں وقت گزارتے ہوئے انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ بزرگ خاتون نے بتایا کہ نرسری وارڈ سمیت خواتین کے لیے مختص وارڈز میں دھکم پیل کا سماں ہے، زچگی کے لیے آنے والی خواتین کے لیے جگہ کم ہے اس لیے ایک بیڈ پر دو دو خواتین کو لٹایا جاتا ہے،، بزرگ خاتون کی طرح دیگر کئی خواتین اور ان کے لواحقین نے بھی زنانہ ہسپتال میں سہولیات کی عدم موجودگی کا رونا رویا اور حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔

زنانہ ہسپتال میں اپنی خواتین کی دیکھ بھال کے لیے موجود ایک شخص صابر خان نے بتایا کہ حکومت سے کروڑوں روپے کا فنڈ لینے والا زنانہ ہسپتال سہولیات کے نام پر بدنما داغ ہے، بعض اوقات وارڈ میں بچوں کے لیے کوئی بیڈ دستیاب نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک ایک بیڈ پر چار خواتین اور بچے داخل ہیں، ان کے ساتھ تیمارداری کے لیے موجود خواتین کے بیٹھنے یا لیٹنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے جبکہ وارڈ سے باہر ان خواتین کے شوہروں اور رشتہ داروں کے لیے بھی کوئی مناسب سایہ یا لیٹنے کے انتظامات نہیں ہیں اس لیے مرد حضرات کو وارڈ سے باہر ننگی زمین پر لیٹنا پڑتا ہے۔

اس حوالے سے جب زنانہ ہسپتال کی انتظامیہ سے مؤقف لینے کے لیے ہسپتال پہنچے تو کئی ذمہ داران نے مؤقف دینے سے معذرت کی جبکہ نرسری وارڈ کی انچارج ڈاکٹر موقع پر موجود نہیں تھیں لیکن معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ زنانہ ہسپتال کی یہ عمارت بہت پرانی ہے یہاں پر گنجائش سے زیادہ خواتین مریض داخل ہیں جس کی وجہ سے مزید بوجھ برداشت کرنا مشکل ہے۔

معلومات کے مطابق خطے میں واحد بڑا زنانہ ہسپتال ہونے کی بنا پر زچگی کی خواتین مریضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور یہاں ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے علاوہ ضلع ٹانک، جنوبی وزیرستان، سب ڈویژن جنڈولہ اور درہ زندہ کے مریض بھی داخل ہوتے ہیں، عمارت چھوٹی اور وارڈز میں بیڈز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے خواتین مریضوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔

یہاں انے والی خواتین مریضوں اور ان کے لواحقین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یا تو ڈسٹرکٹ ہسپتال زنانہ کو توسیع دی جائے اور یا پھر زچہ و بچہ کے لیے ایک اور نیا اور جدید ہسپتال تعمیر کیا جائے تاکہ ڈسٹرکٹ زنانہ ہسپتال میں آنے والی خواتین مریضوں کی تعداد کو مناسب سطح پر برقرار رکھاجا سکے اور ان کو مناسب سہولیات مہیا کی جا سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button