صحت

کیا ماہواری نا ہونا بانجھ پن کی نشانی ہے؟

 

ناہید جہانگیر

"چچا زاد نے منگنی اس لئے توڑ دی کہ ہیجڑے سے شادی نہیں کرسکتا ، ایک تو منگنی ٹوٹ گئی کافی دکھ ہوا اور اوپر سے اللہ تعالی ک طرف سے پیدا کردہ نقص کا طعنہ بھی دیا گیا”
یہ کہانی ہے پشاور شہر کے علاقے گور گھٹری سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ پری کی جو بچپن میں اپنے چچا زاد سے منسوب ہوئی تھی لیکن جب وہ جوان ہوئی تو نا انکی ماہانہ ماہواری تھی اور نا ہی نسوانی حسن تھا۔ جسکو چچا کے گھر والوں نے جواز بنا کر رشتہ توڑ دیا اور والدین کو معذرت کی کہ اپنی بیٹی کا رشتہ کہیں اور کردیں کیونکہ ان کی بیٹی اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کو اپنے بیٹے کی اولاد چاہئے جبکہ آپکی بیٹی اس قابل نہیں ہے کہ وہ بچے پیدا کر سکیں گی۔

پری بتاتی ہیں کہ ان کے زمانے میں اس قسم بیماری پر بات کرنا کافی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ علاج کرانا تو دور کی بات تھی بس اسی طرح وقت گزرتا گیا۔ منگنی ٹوٹنے کے ایک یا دو سال بعد پری کا رشتہ کہیں اور ہوگیا اور شادی بھی ہوگئی۔
وہ کہتی ہیں کہ شادی کے ایک سال بعد اللہ نے انکو ایک پیارا سا صحت مند بیٹا دیا وہ جب ایک سال کا تھا تو اللہ نے انکی جھولی دوسرے بیٹے سے بھر دی اور اسی طرح وہ 2 بیٹوں اور 4 بیٹیوں کی ماں بن گئی۔

کیا چھاتی سائز سے بچے کی پیدائش یا دودھ پروڈکشن پر فرق پڑتا ہے؟

ماہر امراض اطفال اسسٹنٹ پروفیسر امیر محمد کہتے ہیں کہ خواتین کی چھاتی کی سائز کا بچے کی پیدائش یا دودھ پروڈکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سائز جو بھی ہو بچے کی غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ ایک ماں اپنی ایک چھاتی سے ایک ہی وقت میں 2 بچوں کو دودھ پلا سکتی ہیں۔ بانجھ پن کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن بریسٹ کے ساتھ ان کو منسلک کرنا ایک غلط تصور ہے۔

دوسری جانب پشاور کی شیرین کہتی ہیں کہ ان کی نانی اکثر ان کو بتاتی تھی کہ اس کو زندگی میں کبھی بھی حیض نہیں ہوا لیکن اسکے باجود 3 بیٹیوں کو جنم دیا اور نا ہی بلوغت کے ساتھ چھاتی کی نشوونما ہوئی۔ نانی کے مطابق ان دنوں شاید اسکو کوئی بیماری تصور نہیں کرتا تھا یا کسی کو علم بھی نہیں تھا کہ اس قسم کی بیماری کا بھی علاج ہوتا ہے۔دوسری اہم بات وہ پرانا زمانہ تھا شرم وحیا ہوا کرتا تھا ۔آج کل کسی بھی پوشیدہ بیماری کا لوگ بآسانی علاج کر لیتے ہیں۔

کیا ماہواری نا ہونا بانجھ پن کی نشانی ہے؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر افروز خٹک کہتی ہیں کہ خواتین میں بانجھ پن کی بنیادی وجوہات ہارمون میں خرابی، پولیسسٹک اوورین سنڈروم ،اینڈومیٹری اوسس ، فیلوپین ٹیوب سسٹم میں خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسکے بر عکس اگر کسی بھی خاتون کا بیضہ طاقت ور ہے تو ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہیں۔ صرف حیض کا نا ہونا ہی بانجھ پن کی وجہ نہیں ہے۔

اس حوالے سے گائناکالوجسٹ ڈاکٹر فاطمہ کہتی ہیں کہ ماں بننے کا تعلق ایک ایسے عمل سے ہے کہ جس میں خاتون کے جسم کا ایک اعضا شامل نہیں ہوتا اس میں بہت ساری چیزیں ہیں۔ دماغ سے اگر شروع کیا جائے تو وہ ہارمون کنٹرول کرتا ہے اسی طرح بیضہ دانی کا ہونا بھی ضروری ہے بچہ دانی بھی اہم ہے جس میں بچہ پلتا ہے۔ ایک نارمل خاتون کے ٹیوب بھی کھلے ہونا بہت ضروری ہے تاکہ بچے بننے کا عمل کامیابی کے ساتھ مکمل ہو سکے۔

وہ کہتی ہیں کہ ایک تو ماہواری اور بچہ پیدا کرنا یہ ایک براڈ ٹرم ہے ایک وسیع ٹاپک ہے۔ اسکے مختلف وجوہات ہیں کہ ایک عورت ماں بن سکتی ہیں کہ نہیں۔ طب کے حوالے سے بہت ساری ڈس آرڈرز ہوسکتے ہیں۔

ان ڈس آرڈرز میں سے ایک بیماری ہوتی ہے جسکو ایم کے آر ایچ کہتے ہیں اس بیماری میں ایک خاتون کی بچہ دانی پوری بنی نہیں ہوتی۔ ایسی عورت میں اںڈا دانی ہوتی ہیں لیکن ان کو ماہواری نہیں آتی وہ شادی کی بھی قابل ہوتی ہیں اور شادی کر سکتی ہیں۔ لیکن کوکھ سے بچہ پیدا نہیں کر سکتی۔

اسی طرح بعض بچیوں میں ماہواری نا آنے کی وجہ ایک چھوٹا سا پردہ ہوتا ہے اندر حائل ہوکر ماہواری کے خون کو اندر جمع کرتا ہے اور باہر خارج ہونے سے روکتا ہے۔ اس قسم کی بیماری میں بچیوں کو درد ہوتا ہے لیکن خون خارج نہیں ہوتا پھر چھوٹا سا آپریشن کیا جاتا ہے جس کے زریعے سے پردہ ہٹایا جاتا ہے اور ماہواری شروع ہو کر یہ مسلہ حل ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر فاطمہ نے مزید کہا کہ پھر ہارمونیل کنٹرول کی اگر بات کی جائے تو اس میں پی سی اوز بیماری ہے جس میں بچیوں کو ماہواری بہت کم آتی ہیں۔ یا ماہواری کا دورانیہ کافی ہوتا ہے جس میں 2 یا 3 مہینے کا وقفہ ہوتا ہے۔ یعنی ماہواری ریگولر نہیں ہوتی اسکا بھی علاج ممکن ہے۔ علاج کے بعد خاتون بچہ پیدا کرنے قابل ہوتی ہیں۔

اسکے بعد بعض بچیوں یا خواتین میں بچہ دانی نہیں ہوتی یہ بہت براڈ ٹرم ہے اس بیماری میں بھی ماہواری نہیں ہوتی اس قسم کی بیماری کی زیادہ تر شادی کے بعد تشخیص ہوتی ہیں۔ ازدواجی تعلقات کے قابل ہوتی ہیں لیکن بیماری کا شادی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یوٹرس ہی نہیں ہے۔ لیکن اس بیماری کی صورت میں بھی خاتون میں اندر بیضہ دانی ہوتی ہے جس سے بچہ پیدا ہوسکتا ہے۔

گائناکالوجسٹ فاطمہ نے بتایا کہ ایک بچہ پیدا کرنے میں ہارمونیز، بچہ دانی ، بیضہ دانی ، ٹیوبز،وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ تو کسی بھی ایک وجہ کو بنیاد بنا کر نہیں کہا جا سکتا کہ خاتون بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان تمام بیماریوں کا  علاج ممکن ہے جس سے ایک خاتون ماں بن سکتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button