مخصوص سیٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم، بڑی آبادی کے حامل اضلاع کا استحصال کیوں؟
بلال یاسر
خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے طالب علم عنایت خان جب ایف ایس سی کا امتحان دے رہے تھے تو وہ بہت پرجوش تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد وہ مخصوص سیٹوں پر کسی بڑے میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکیں گے تاہم ان کی یہ خوشی اس وقت مایوسی میں بدل گئی جب وہ 85 فیصد نمبرز حاصل کرنے کے باوجود مخصوص سیٹ پر داخلے سے محروم رہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے عنایت خان نے دعویٰ کیا کہ مخصوص سیٹ پر ضلع مہمند سے ان کے مقابلے میں 84 فیصد نمبر حاصل کرنے والے امیدوار کو سلیکٹ کیا گیا۔
خیال رہے کہ فاٹا انضمام کے وقت حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں 265 مخصوص سیٹوں پر داخلے دیئے جائیں گے۔
ماہر تعلیم نور خان انصاری گزشتہ 20 سال سے باجوڑ میں دو نجی تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ ٹی این این سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے خواہشمند ضم اضلاع کے امیدواروں کا اپنے تابناک مستقبل کا خواب مخصوص کوٹہ کی غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے سالہا سال سے چکناچور ہوتا رہا ہے۔
ان کے مطابق مردم شماری کی بنیاد پر ہی وسائل وغیرہ کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے اور اسی مقصد کی خاطر مختلف ممالک میں ایک خاص دورانیہ کے بعد مردم شماری عمل میں لائی جاتی ہے۔
انصاری نے بتایا کہ پاکستان میں 2017 کو ہونے والی مردم شماری کے مطابق ضم اضلاع میں سب سے زیادہ آبادی ضلع باجوڑ کی ہے جو 10 لاکھ 90 ہزار 987 نفوس پر مشتمل ہے؛ 9 لاکھ 84 ہزار 244 نفوس کے ساتھ ضلع خیبر دوسرے نمبر پر، جبکہ جنوبی وزیرستان کی آبادی 6 لاکھ 75 ہزار 215 افراد پر مشتمل ہے۔
اگر اس کے برعکس جائزہ لیا جائے تو ضلع اورکزئی کی کل آبادی 2 لاکھ 54 ہزار 303، ایف آرز کی 3 لاکھ 19 ہزار 230 جبکہ ضلع مہمند کی آبادی 4 لاکھ 74 ہزار 345 نفوس پر مشتمل ہے۔
نور خان انصاری کے مطابق ان اعدادو شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ضم اضلاع کی آبادیوں میں ایک دوسرے سے کہیں دو گنا، کہیں تین گنا تو کہیں چار گنا تک کا فرق ہے تاہم اگر ان اضلاع کی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں مخصوص نشستوں کی بات کی جائے تو 10 اور 11 لاکھ آبادی والے اضلاع کے لئے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی سیٹوں کی تعداد 42 جبکہ ڈھائی اور تین لاکھ آبادی والے اضلاع کے لئے 41 ہے۔ یعنی 11 لاکھ یا پھر ڈھائی لاکھ نفوس کے لیے ہر سال تقریباً ایک برابر ڈاکٹرز تیار کئے جاتے ہیں جو کہ نہ صرف بڑی آبادی کے حامل اضلاع کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ وہاں کے ذہین اور قابل طلباء کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے جو کافی بلند میرٹ رکھنے کے باوجود بھی ڈاکٹرز بننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ باجوڑ اور خیبر کے طلبہ و طالبات 83 پلس فیصد سکور کے باوجود بھی داخلہ لینے سے محروم ہو گئے ہیں جبکہ کم آبادی والے اضلاع کے 74 پلس فیصد سکور والے امیدوار داخلہ لینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
اسی طرح 23-2022 میں زیادہ آبادی والے اضلاع کے امیدوار 87.4 فیصد سکور کرنے کے باوجود داخلہ لینے سے محروم تو چھوٹے اضلاع سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو 83.3 فیصد پر بھی داخلہ ملا ہے۔
باجوڑ کے عوام اور متاثرہ طلباء کا مطالبہ ہے کہ امسال سے ضم اضلاع کے میڈیکل و ڈینٹل کوٹہ کی تقسیم آبادی کے تناسب سے کروا کر بڑی آبادی کے حامل اضلاع کے عوام اور طلبہ و طالبات کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے۔